جس طرح مختلف کمپنیاں سال کے اختتام پر حساب لگاتی ہیں اُس ہی طرح ہمیں بھی وقتاً فوقتاً اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے کہ ہمارے نامہ اعمال میں کتنی نیکیاں اور کتنی برائیاں لکھی گئی ہیں۔کیا ہم نے اپنے نامہ اعمال میں ایسے نیک اعمال درج کرائے کہ کل قیامت کے دن ان کو دیکھ کر ہم خوش ہوں اور وہ اعمال ہمارے دنیا و آخرت میں نفع بخش بنیں۔۔۔؟؟؟ یا ! (اللہ نہ کرے) ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ایسے اعمال ہمارے نامہ اعمال میں درج ہوجائیں جو ہماری دنیا و آخرت کی ناکامی کا ذریعہ بنیں۔۔۔؟؟؟کیا اپنی نماز،اپنی قربانی،اپنی زندگی اور اپنی موت کو صرف اللہ سبحانہ و تعالی کے لئے خالص کردی۔۔۔؟؟؟
❄میری نماز،میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العلمین کے لئے ہے۔ (سورۃانعام )
ہمارے اخلاق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا نمونہ بنے یا نہیں۔۔۔؟ہم نے اپنے بچوں کی ہمیشہ کی زندگی میں کامیابی کے لئے کچھ اقدامات بھی کئے یا صرف ان کی دنیاوی تعلیم اور ان کو دنیاوی سہولیات فراہم کرنے کی ہی صرف فکر کرتے رہے۔۔۔؟بحیثیت ایک مسلمان اور ایک داعی ہمارا ہر عمل ہر میدان میں خلوصِ نیت کے ساتھ نتائج سے بے پرواہ ہو کر اپنی تمام تر قوتِ کار کو اقامتِ دین کی جدوجہد میں لگا رہے ہیں یا نہیں۔۔۔؟
محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس کا آج اس کے گزشتہ کل سے بہتر نہیں وہ تباہ ہو گیا۔””سال”ایک فرد کی انفرادی و ذاتی زندگی کا ایک بہت بڑا دورانیہ ہوتا ہے۔ایک سال کے دوران کئی منصوبے،بے شمار ارادے اور کتنے ہی ترتیب دیئے ہوئے انسانی قیاسات و اندازے و تخمینے گزر جاتے ہیں،سال کے آخر میں انسان سوچتا ہے کہ ان میں سے کتنے پایہ تکمیل کو پہنچے اور کتنے ابھی تک زیرِ تکمیل ہی ہیں،جو محض ہوا میں تحلیل ہو کر آرزؤں،خواہشات اور امنگوں کی شکل اختیار کرکے وقت کی دبیز تہہ میں دب کر قبرِ ماضی میں دفن ہوجاتے ہیں۔ان میں سے کچھ کی کسک یا پچھتاوا بن جاتے ہیں۔
سال کے اختتام پر دیکھا جائے کہ ہم انفرادی طور پر کہاں ہیں اور بحیثیت قوم اور بحیثیت امت ہم نے کیا حاصل کیا۔بحیثیت فرد ہوکر موت کو ہر وقت یاد رکھنا چاہئے۔
❄ایک دفعہ محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد سے نکلتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا کہ کتنا زندہ رہنے کی توقع ہے۔۔۔؟حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا ایک جوتا پہن چکا ہوں دوسرے کی خبر نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ! تم نے تو بہت لمبی امید باندھ لی اور پھر ارشاد فرمایا مجھ کو تو آنکھ جھپکنے کی بھی توقع نہیں کہ اتنی مہلت بھی ملے گی کہ نہیں۔۔۔۔
ہمیں اپنی زندگی کے سب لمحات ایسے گزارنے چاہیے کہ ہم بحیثیت امت رقتِ سفر ہمہ وقت تیار رہیں۔بد مستیوں میں زندگی گزارنا کہیں کی عقلمندی نہیں ہے۔۔۔۔نیز خسارے کے اسباب سے بچنے کے اور فائدے کے اسباب کو زیادہ سے زیادہ اختیار کرنے کی پلاننگ کرتے رہیں۔اس ہی طرح ہمیں سال کے اختتام پر وقتاً فوقتاً اپنی ذات کا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے کہ کس طرح ہم دونوں جہاں میں کامیاب و کامرانی حاصل کرنے والے بنیں۔۔۔کس طرح ہمارا اور ہماری اولاد کا خاتمہ ایمان بالخیر پر ہو۔۔۔۔کس طرح آخروی زندگی کی پہلی منزل یعنی قبر جنت کا باغیچہ بنے۔۔۔۔جب ہماری اولاد،ہمارے دوست احباب ہمیں دفن کر کے قبرستان کے اندھیرے میں چھوڑ کر آجائیں گے،تو کس طرح ہم منکر نکیر کے سوالات کے جواب دیں گے؟۔۔۔کس طرح ہم پلِ صراط سے بجلی کی سی تیزی سے گزریں گے؟۔۔۔قیامت کے دن ہمارا نامہء اعمال کس طرح دائیں ہاتھ میں ملے گا؟۔۔۔کس طرح حوضِ کوثر سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک سے کوثر کا پانی پینے کو ملے گا؟،جس کے بعد پھر کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی۔۔۔جہنم کے عذاب سے بچ کر کس طرح بغیر حساب و کتاب کے ہمیں جنت الفردوس میں مقام ملے گا؟۔۔۔
آخرت کی کامیابی و کامرانی ہی اصل نفع ہے۔جس کے لئے ہمیں اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے۔اب ہماری زندگی کے جتنے ایام بچے ہیں۔۔۔انشاء اللہ! اپنے اللہ کو،اپنے رب کو راضی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ:پانچ حالتوں کو دوسری پانچ حالتوں کے آنے سے پہلے غنیمت جانو اور ان سے جو فائدہ اٹھانا چاہتے ہو اٹھالو!
*غنیمت جانو جوانی کو بڑھاپے کے آنے سے پہلے ۔
*غنیمت جانو تندرستی کو بیمار ہونے سے پہلے۔
*غنیمت جانو خوش حالی اور فراخ دستی کو ناداری اور تنگدستی سے پہلے۔
*غنیمت جانو فرصت اور فراغت کو مشغولیت سے پہلے۔
*اور غنیمت جانو زندگی کو موت سے پہلے۔
السلام علیکم و رحمة الله و بركاته۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس کا آج اس کے گزشتہ کل سے بہتر نہیں وہ تباہ ہو گیا۔””
اس حدیث کا حوالہ اور حکم چاہیے۔جزاک الله خيرآ
Is ka hawala hadith ki books ma ni milra.. I dont knw ye koi qol ha etc… I searched alot but mje ni mila… Likhny wly ny b hawala dia ni