ننھے مزدور

   جب ایک بچّہ دنیا میں آتا ہے تو وہ اپنے والدین کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ اسے کھلانا، پلانا، چھت فراہم کرنا، اچّھی تعلیم اور تربیت دینا والدین کا فرض ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ دور میں یہ فرض ادا کرنا مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے۔ وسائل کی کمی، مہنگائی، بے روزگاری اور بنیادی وسائل روٹی، کپڑا اور مکان ایک عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ جب تک کہ وہ آمدنی کے لیے ایک سے زائد زرائع تلاش نہ کرے یا پھر مغرب کی طرح خاندان کے تمام افراد کام نہ کریں تاکہ ان کو دو وقت کی روٹی مل سکے۔ ظاہر ہے خاندان کے افراد میں بچّے بھی شامل ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ مغرب میں بچّے عموماً اٹّھارہ برس کی عمر سے کام شروع کرتے ہیں جب کہ ہمارے یہاں اکثر و بیشتر پانچ یا چھ سال کا بچّہ بھی کہیں نہ کہیں کام کر رہا ہوتا ہے۔ ٹریفک سگنلز پر گاڑی صاف کرتے، ورک شاپس یا مکینک کی دکانوں پر، فیکٹریوں میں، چائے کے ہوٹلوں میں، پیٹرول پمپس پر اور سب سے زیادہ تعداد گھروں میں مختلف کام کرتے ہمیں بے شمار بچّے اور بچّیاں نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ غربت اور تنگ دستی کے علاوہ معاشرے کے افراد کی بڑھتی ہوئی بے حسی اور خود غرضی بھی ہے۔ امیر گھرانوں میں بچّے اور بچّیاں خود سے چند برس چھوٹے بچّوں کو سنبھال رہے ہوتے ہیں۔ گھر کے کام کرتے ہیں اور اکثر و بیشتر مالکان کی جھڑکیاں اور گالیاں کھاتے ہیں۔ وہ بچّے جنھیں خود نگہداشت، تعلیم اور اچّھی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے وہ اپنی بساط سے بڑھ کر کام کرتے ہیں۔ اس کے ذمہ دار ان کے والدین کے ساتھ، ساتھ وہ لوگ بھی ہیں جو ان سے یہ سب کام کرواتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ گھروں میں کام کرنے والے بچّے، بچّوں کو سنبھال رہے ہیں یا بھاری سامان اٹھائے چلے جا رہے ہیں جب کے ان کے مالکان ہوٹل میں کھانا کھا رہے ہیں یا شاپنگ میں مصروف ہیں۔ یہ بے حسی نہیں ہے تو کیا ہے؟ کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اپنا جھوٹا کھانا کھلا کر یا اپنے بچّوں کی اترن ان بچّوں کو پہنا کر ہم ان سے سارے کام کروا سکتے ہیں۔ یا ان کو غلام بنا کر رکھ سکتے ہیں۔ اکثر ورک شاپس، ہوٹلز یا فیکٹریوں میں چھوٹے چھوٹے بچّوں سے سخت ترین کام لیا جاتا ہے اور اجرت بھی پوری نہیں دی جاتی۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ گھر سے باہر نکل کر کام کرنے والے بچّوں کو انسان نما بھیڑیوں کے ہاتھوں کئی قسم کی زیادتیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جس میں جنسی ذیادتی بھی شامل ہے۔   بچّوں سے مزدوری کروانے کا رجہان دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی وجہ معاشرے میں موجود دہرا معیار اور غربت کا تیزی سے بڑھتا ہوا فرق۔ غریب طبقہ غریب تر ہوتا جا رہا ہے جبکہ امیر طبقہ امیر سے امیر تر۔ عام طور پر بچّوں سے کام اسلیئے بھی کروایا جاتا ہے کہ ان کو معاوضہ زیادہ نہیں دینا پڑتا پھر ان سے کسی بھی طرح کا کام کروا لیا جائے عموماً وہ احتجاج نہیں کرتے۔ اکثر اوقات یہ کام کرنے والے بچّے دن و رات کی ملازمت کرتے ہیں۔ چھٹّی کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہوتی یہ بچّے مہینوں اپنے والدین کی شکل نہیں دیکھ پاتے۔ یہ کیسا انصاف ہے؟ کیا ہم میں سے کسی نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ان بچّوں کے دلوں پہ کیا گزرتی ہو گی جب یہ کام کے دوران اپنے ہی جیسے دوسرے بچّوں کو ہر آسائش استعمال کرتے، اچّھا کھاتے پیتے، قیمتی کھلونوں سے کھیلتے دیکھتے ہوں گے تو انھیں کس قدر احساسِ محرومی ہوتی ہوگی۔ ہم بحیثیت معاشرہ اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ ان باتوں پر غور کرنے کا نہ تو ہمارے پاس وقت ہے اور نہ ہم اسے ضروری سمجھتے ہیں۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا کام ہوتا رہے چاہے وہ کوئی بھی کرے۔ کیا کسی کی مجبوریوں کا سودا کر کے اپنا کام کروانا جائز ہے؟ ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جنھوں نے ان بچّوں کی جگہ ایک مرتبہ بھی اپنے بچّوں کو رکھ کر سوچا ہو گا؟ کیا وہ بھی ہمارے  بچّوں جیسے ہی بچّے نہیں ہیں؟ اگر ہمارے معاشرے کے صاحبِ حیثیت افراد اپنے بچّوں کے ساتھ کسی ایک ضرورت مند بچّے کی ذمہ داری اٹھا لیں تو شاید یہ انمول رتن، ہمارے ملک کا مستقبل یوں پامال نہ ہوں۔ مجروح سلطان پوری  کا ایک بہت پرانا گیت تھا۔

دیوانہ آدمی کو بناتی ہیں روٹیاں

خود ناچتی ہیں سب کو نچاتی ہیں روٹیاں

بوڑھا چلائے ٹھیلا فاقوں سے جھول کے

بچّہ اٹھائے بوجھ کھلونوں کو بھول کے

دیکھا نہ جائے جو سو دکھاتی ہیں روٹیاں

کہتا تھا اک فقیر کہ رکھناذرا نظر

کہ روٹی کو آدمی ہی نہیں کھاتے بے خبر

اکثر تو آدمی کو بھی کھاتی ہیں روٹیاں

تجھ کو پتے کی بات بتاؤں میں جانِ من

کیوں چاند پر پہنچنے کی انسان کو ہے لگن

انسان کو چاند میں نظر آتی ہیں روٹیاں۔

جواب چھوڑ دیں