متحدہ عرب عمارات نے کشمیر کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے دیا
سعودی عرب کا بھارت میں پچھتر ارب ڈالر کی سرمایا کاری کا فیصلہ
کشمیر کا معاملہ سفارتی محاذ پر کامیابی سے لڑیں گے، شاہ محمود قریشی کا اعلان
پاکستانیوں نے کشمیر سے اظہار یکجہتی کے لیے چودہ اگست کو ” کشمیر بنے گا پاکستان “کے ساتھ اور پندرہ اگست کو وزیراعظم کی درخواست پر یوم سیاہ منانے کا فیصلہ کر لیا
وزیر اعظم نے مظلوم کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے بروز جمعہ کو آدھ گھنٹے کی خاموشی اختیار کرنے کے لیے کہہ دیا
کشمیریوں کے درد کا احساس کرتے ہوئے وزیر اعظم نے آج بازو پر سیاہ پٹی باندھ لی
اوپر لکھے گئے فقروں اور کشمیر کے لیے کی جانے والی پاکستانی حکومت کی اب تک کی گئی کوششوں کا جائزہ لیں تو ایک چیز سب میں مشترکہ دکھائی دیتی ہے یعنی بےحسی۔ اب چاہے یہ بےحسی اجتماعی طور پر ملکوں کی سطح پر ہو یا انفرادی طور پر افراد کے رویے میں جھلکے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس بے حسی کی وجہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے بتائی تھی اور اس سے امت کو خبردار بھی کیا تھا یعنی “مرض وہن”
رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’ قریب ہے کہ (گمراہ) قومیں تمہارے خلاف اس طرح یلغار کریں گی جس طرح کھاناکھانےوالا کھانے پہ ٹوٹ پڑتاہے ۔‘‘
کسی نے عرض کیا: ’’اس روز ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوگا؟‘‘
آپ ؐنے فرمایا: ’’ نہیں ، بلکہ اس روز تم زیادہ ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ہو گے، اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دل میں وہن ڈال دے گا۔‘‘
کسی نے عرض کیا، اللہ کے رسول: ’’ وہن کیا ہے؟ ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ دنیا سے محبت اور موت سے نفرت۔‘‘ . (رواہ ابو داود ۴۲۹۷)
اور آج ہم اس پیشنگوئی کو حرف بہ حرف پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ کچھ لوگ یہاں یہ سوال کر سکتے ہیں کہ پاکستانی قوم کشمیریوں کا ہر محاذپر ساتھ دے تو رہی ہے تو ان سے عرض ہے کہ بھارتی فوج کے بہیمانہ مظالم کا نشانہ بنی اپنی آزادی اور خودداریت کے لیے لڑتی مظلوم کشمیری قوم کو نجات دلانے کے لیے کھوکھلے سفارتی طریقے اپنانا، بوگس نعرے لگانا اور سوشل میڈیا پر کبھی دل کرنے پر وہاں جاری بربریت کی تصاویر شئیر کر دینا ایسا ہی ہے جیسے کسی اپنے کو تشدد کا نشانہ بنتے دیکھ کر کسی تیسرے بندے کو بیچ بچاؤ کرانے کے لیے بلانا۔ اگر خدانخواستہ یہ آزمائش ہم پر آتی تو کیا اس طرح کی کوششوں کو کافی سمجھتے ہم؟
یقیناً یہ ہمارا مرض وہن ہی ہے جس کی وجہ سے کشمیر آج تک آزاد نہیں ہو سکا اور ستر سال تک بات صرف احتجاج اور مذمتی قراردادوں تک محدود رہی یا وہ چار نام نہاد جنگیں جن میں مقتدر حلقوں کو علم ہی نہیں تھا کہ وہ بےقصور فوجیوں کو شہید کیوں کروا رہے ہیں جب انہوں نے کوئی باقاعدہ اہداف طے کیے ہی نہیں ہیں جن کا حصول مقصود ہو۔ اسی لیے ان جنگوں میں کشمیر کو آزاد کروانے کی اہلیت رکھنے کے باوجود شملہ اور تاشقند جیسے زہریلے معاہدوں پر خوشی خوشی دستخط کر کے اپنے مظلوم بھائیوں کو اسی جبر میں تڑپتا چھوڑ کر واپس آ گئے۔ مادیت پرستی کے اس دور میں انسانی، اخلاقی اور مذہبی قدروں کی اب کوئی اہمیت باقی نہیں رہی اس لئے محمد بن قاسم اور سلطان صلاح الدین ایوبی کا نام اور کارنامے صرف تاریخ کی کتابوں تک محدود رہ گئے۔
جن بھولے لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ کشمیر کے لیے پاکستان یا بھارت ایٹمی جنگ کریں گے وہ بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ ایٹمی جنگیں مذاق نہیں ہوتیں اور نہ ہی ایسے تنازعوں پر لڑی جاتی ہیں۔ اس لئے لے دے کر کشمیر کے مسئلے کا ایک ہی حل ہے یعنی امت مسلمہ کا متحد ہونا اور جذبہ جہاد کے ساتھ اس کی تیاری کرنا۔واضح رہے کہ صرف زبان سے جہاد کی آرزو کرنے اور اس کے لیے باقاعدہ تیاری کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جن کے گھروں میں جہاد کی اصل روح پر بحث ہوتی ہے اور اسکی تیاری کے لیے جہاد بن النفس کیا جاتا ہے ؟ کتنے ایسے ہیں جن کے گھر کے افراد جسمانی اور ذہنی لحاظ سے مضبوط ہیں اور ہر طرح کا حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں اور آج اگر جہاد کا اعلان ہو جائے تو فوراً نکل کھڑے ہوں گے؟ یا کتنے ایسے ہیں جو ہر معاملے میں خود کو باخبر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور حکومت وقت سے سوال کرنے کی طاقت رکھتے ہیں کہ آپریشن جبرالٹر کیا تھا اور جب شروع کر دیا تھا تو اسے اختتام تک کیوں نہیں پہنچایا۔ کھربوں روپے ہر سال حکمرانوں کی کرپشن اود پروٹوکول میں لگنے سے روکنے پر حکومت نے کیا حکمت عملی اختیار کی ہے؟
ہماری لاعلمی اور حالات حاضرہ سے بےخبری کا عالم تو یہ ہے کہ آرٹیکل 370 ختم ہونے کے بعد پہلے عوام کو یہ سمجھانا پڑ رہا تھا کہ یہ آرٹیکل تھا کیا اور اسکے ختم ہونے سے کشمیریوں پر کیا اثرات ہونگے۔ جیسے اب یہ سمجھانا پڑ رہا ہے کہ انڈیا کا لداخ اور جموں کو تقسیم کر کےمرکز کے اندر کر دینے اور اس میں لیفٹیننٹ گورنر بنا دینے کا کیا مطلب ہے اور اس سے کشمیریوں کو کیا نقصان ہوگا۔
دیکھا جائے تو یہ ہماری دنیا سے محبت ہی تو ہے کہ مظلوم کشمیری بہن بھائیوں کی مدد کے لیے پکار پر ہمارے پاس بے رہم خاموشی اور سہمے ہوئے دعوے ہیں۔
ترجمہ:اور آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کے لئے جہاد نہیں کرتے ہو جنہیں کمزور بناکر رکھا گیا ہے اور جو برابر دعا کرتے ہیں کہ خدایا ہمیں اس قریہ سے نجات دے دے جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہمارے لئے کوئی سرپرست اور اپنی طرف سے مددگار قرار دے دے (سورۃنسا آیت ٧۵)
جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے، اُنھیں لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم ہوا ہے اور اﷲ ان کی مدد پر یقینا قدرت رکھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے بے قصور نکالے گئے ہیں، اُن کا قصور فقط یہ تھا کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب ﷲ ہے‘‘۔ (الحج:۳۹۔۴۰)
یاد رکھیے کہ یہ دور جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا ہے۔ بھارت کھلے عام ملک میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے اور کشمیر میں ریاستی دہشتگردی کو عروج پر پہنچانے کے معاملے میں کتنا ہی بد نام کیوں نہ ہو اس پر بات عالم اقوام اور عالم اسلام کی کوششیں خاموشی اور مذمتی قراردادوں سے کبھی آگے نہیں بڑھے گیں کیونکہ بھارت دنیا کی تیسری بڑی ابھرتی ہوئی معیشت ہے اور تقریباً سارے بڑے ممالک کا اس کے ساتھ معاشی مفاد وابستہ ہے۔اس مادہ پرستی کے دور میں دنیا کا کوئی بھی ملک صرف انسانی ہمدردی کے ناطے کشمیر یا مسلمانوں کی خاطر بھارت سے اپنے تعلقات کبھی خراب نہیں کرےگا جس کا عملی نمونہ ہم اس تنازعے میں مسلمان ممالک کی غیر جانبداری اور دیگر ممالک کی بھارت نوازی کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔
اس کے علاوہ اپنے ملک کی بات بھی کریں تو یہ دیکھ کر محض تاسف ہوتا ہے کہ کہ کشمیر کے مسئلے پر ہم لڑنے مرنے کے لیے تو تیار ہیں لیکن اپنے ملک کی معیشت کو تقویت دینے کے لیے اس کی بنی ہوئی چیزوں کو استعمال کرنا یا اپنے اثاثوں پر ٹیکس دینا ہمیں گوارہ نہیں ہے۔
یہ دنیا سے محبت ہی تو ہے جو اپنے آرام پر ذرہ سی بھی آنچ آنا ہمیں گوارہ نہیں ہے اس لیے کسی بھی قسم کے ملکی مسئلے کا حل ہمیں ایٹمی جنگ لگتا ہے ۔ کیا یہ بزدلی کی انتہا نہیں ہے کہ جذبہ جہاد رکھنے کا دعوی کرنے والی قوم کسی بھی طرح کی کشیدگی میں سب سے پہلے ان ہتھیاروں کی بات کرتی ہے جن کے بارے میں سب سے آخر میں بھی بات نہیں ہونی چاہیے؟ ایٹمی ہتھیار ہی استعمال کرنے ہیں تو آپ کے اس جذبہ شہادت کا کیا؟
ہم کیا کر سکتے ہیں؟
١۔ سب سے پہلے تو یہ بات اپنے ذہن سے کھرچ کر نکال دیجیے کہ صرف دعا مانگنے سے ہر چیز بدل جائے گی ۔
٢۔ اپنے ملک کی مصنوعات خریدیں بیرون ملک رہنے والے رشتےداروں پر زور دیجیے کہ زرمبادلہ بینک کے ذریعے بھیجیں کیونکہ باہر سے زرمبادلہ اگر حکومتی بینکوں کے ذریعے آئے تو ملک کی معیشت کو بےحد تقویت دیتا ہے اور وہی پیسہ اپنے کسی جانے والے کے ذریعے بھیج دیا جائے تو ملک کی معشیت کو بہت نقصان پہنچاتا ہے۔
٣۔اپنے آپ کو فائلر بنوا لیجیے اور اگر ٹیکس بنتا ہے کسی چیز پر تو اسے ادا کیجیے ( یاد رکھیں کہ مہنگائی کا طوفان اسی لیے بڑھ رہا ہے کہ ملک کا صرف ایک فیصد طبقہ ڈائریکٹ ٹیکس ادا کرتا ہے جس کی وجہ سے حکومت کو ملک چلانے کے لئے انڈائریکٹ ٹیکس لگانے پڑتے ہیں جس سے غریب اور متوسط طبقہ پس جاتا ہے اوراس کا وبال ان سب لوگوں کے سر ہے جو اپنے ٹیکس ادا نہیں کرتے یا ایف بی آر کو رشوت دے کر اپنے مال کو تھوڑا لکھواتے ہیں۔) یہاں جو لوگ اسلامی نظام اور زکوۃ کی بات کرتے ہیں ان سے عرض ہے کہ اسلامی نظام لانے کے لیے ہم کتنی کوششیں کرتے ہیں اسکا ہمیں خود بھی اچھی طرح اندازہ ہے اس لیے اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑوانے کے بجائے اس طریقے پر عمل کیجیے جو مروجہ ہے اور جس پر یہ ملک چلتا ہے۔
۴۔ سوشل میڈیا پر غزوہ ہند کے نعرے لگانے کے بجائے اپنے آپ کو اس جہاد کے لئے تیار کیجیے۔ جو لوگ اس غزوے کے بارے میں جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ اس غزوے میں صرف وہی مسلمان شریک ہوں گے جن کا ایمان کا معیار اعلیٰ درجے کا ہوگا اور جن کے لیے جنتوں کی بشارت ہے کیا آپ اپنے ایمان کے معیار سے مطمئن ہیں؟
۵۔ کشمیریوں کے لیے دعائیں مانگنے کے بجائے مجاہد بن کر ان دعائیں لینے والے بنیے اپنے گھروں سے نکل کر اس جہاد کے لئے عملی تیاریاں کیجیے ضروری جہادی تربیت حاصل کیجیے لوگوں میں شعور پھیلائیے اور اللہ رب العزت سے گڑگڑا کر کامیابی اور ایمان میں اضافہ کی دعائیں مانگیے۔
٦۔ کشمیر فنڈ جمع کیجیے اور ڈھونڈ کر قابل اعتبار لوگوں کے ذریعے وہاں بھجوائیے۔
٧۔ سوشل میڈیا پر محض اپنا دفاع کرنے کے بجائے لوگوں کو اصل صورتحل سے آگاہ کیجیے ۔
٨۔ سب سے اہم یہ کہ ڈاکٹر اور انجینئر کے خناس کو ذہن سے نکال کر اپنی پسند کی فیلڈ میں جائیے اور جو بھی کریں اسے بہترین طریقے سے کریں خاص طور پر آئی ٹی کےمیدان میں ضرور جائیے ( اس معاملے میں اپنے دشمن ملک بھارت کو ہی دیکھ لیجیے جو پوری دنیا میں اپنے آئی ٹی ایکسپرٹ کی وجہ سے مشہور ہے اور اس کے ذریعے اربوں روپےکما رہا ہے)
یاد رکھیے جب تک ہم اپنے ملک کو مالی طور پر مضبوط نہیں کر لیں گے تب تک کچھ نہیں کر پائیں گے امریکہ کا اتنی جنگوں میں پڑنا اور پھر قائم رہنا اس کی بہترین معیشت کی وجہ سے ہی ممکن تھا۔ اس کے بعد جب ہم مخصوص پارٹیوں سے اپنی محبت پرستی کو ختم کرکے صرف ملک اور امت کے لئے سوچنے کے قابل ہو جائیں گے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ کشمیر ، روہیگنیا، شام، یمن، فلسطین اور بھارتی مسلمانوں کو فلم وستم اور جبر سے آزاد نہ کروا پائیں۔
علامہ اقبال کے اس پیغام سے اختتام کے ساتھ کہ
خدائے لم یزل کا دست قدرت تو، زبان تو ہے
یقین پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے
یہ نکتہ سرگزشتِ ملتِ بیضا سے ہے پیدا
کہ اقوامِ زمینِ ایشیا کا پاسبان تو ہے
سبق پڑھ پھر صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا