کافی دنوں سے طبیعت بوجھل محسوس ہورہی تھی شاید اس کی وجہ یہ کہ ہماری کتابوں کی الماری منوں بوجھ اٹھائے بہت عرصے سے بے ترتیب پڑی تھی اور ہم نیک خواہشات اور پکے ارادے کے باوجود اپنی بے حد مصروفیات کی وجہ اسے سنوارنے اوراس کا بوجھ کم کرنے میں ناکام رہے۔ہاں یہ ضرور تھا کہ آتے جاتے ایک طائرانہ نگاہ اپنی حسرت یاس سے ملتمس الماری پر ڈال لیا کرتے مگر ہماری تسلی اور عہد و پیمان الماری کو بہلا نہیں سکتے تھے اور لگتا تھا کچھ دنوں سے الماری نے پرشکوہ انداز میں دیکھنا چھوڑ دیا ہے اور زبان پر حروف شکایت بھی نہیں۔وقت پر لگا کے اڑ رہا تھا ۔
بقول شاعر
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
الماری کو ہلکا پھلکا کرنے کا عزم جیسے جیسے تقویت پاتا ایک عجیب سی بے چینی جسم میں سرایت کرجاتی۔دل میں عزم مصمم کیا کہ اپنے ارادے سے چشم پوشی نہیں کریں گے اور اسے سنوار کر ہی دم لیں گے۔
دن میں فرصت نہیں تھی لہذا آپریشن کے لیے رات کا انتخاب کیااگرچہ کے اپنی پیاری سی نیند کی قربانی دینا کوئی آسان کام نہیں تھا ،بہرحال جس رات ہمیں آپریشن کلین اپ کرنا تھا اس دن ہم صبح سے ہی خاصے مصروف رہے ۔ دن بھر کے وہ سارے کام جو ہم گھنٹوں میں کرتے تھے منٹوں میں نمٹ گئے یہ ہمارے لئے بھی ایک حیرت انگیز واقعہ تھا ،دل ہی دل میں سوچا ہم اپنے معمولات میں کتنے سست اورنکمے ثابت ہوئے ہیں ۔اگر ہم اسی پھرتی کا مظاہرہ کیا کریں تو کتنا وقت بچا سکتے ہیں اور یوں ہم اپنی پوشیدہ صلاحیت پر جھوم جھوم گئے۔ہماری چھوٹی بیٹی جو دن میں سوتی اور رات میں جاگتی تھی ہم نے دن بھر اسے جگائے رکھا وہ دن بھر ہمارے ساتھ مصروف رہی، جو کام نمٹاتے مڑ کر دیکھتے بگڑ چکا ہوتا اس کے باوجود بھی حوصلے بلند اور ارادے پکے تھے اس امید پر کہ وہ رات بھر مزے سے سوئے گی اور ہمیں ڈسٹرب نہیں کرے گی اور پھر دن کا اجالا تاریکی میں گم ہو گیا۔
آخر وہ وقت آہی گیا جس کاانتظار تھا یعنی ہم تھے ہماری تنہائی اور کتابوں کا ڈھیر۔اس آپریشن کلین اپ کے لیے خاموشی بہت ضروری تھی ورنہ اس بات کا خدشہ تھا کہ اگر خاموشی کو ملحوظ خاطر نہ رکھا گیا توسب کی نیند خراب ہو جائے گی اور یوں یہ مشن ناکام ہوجائے گا
الماری کے قریب آرام دہ کشن پر ہم براجمان ہو گئے۔ابتداءمیں چند کتابیں نکالیں اور ان کی ورق گردانی کا سلسلہ شروع کردیا ۔ جوں جوں وقت گذرتا رہا ہم کتابوں کے ڈھیر کو سلجھاتے سلجھاتے خود ہی الجھتے چلے گئے کہ اچانک ہی ضمیر نے ملامت کی’تم یہ کتابوں کا ڈھیر ضائع کرنے چلی ہو۔یہ نوٹ بک جس کو تم نے کتنی خوبصورتی سے سجایا تھا اب یہ ٹین ڈبے والے کی نذر کردو گی۔یہ تمھارے قلم اور دوات کیا تمہیں پیارے نہیں ؟کیا اب اس کی جگہ کوڑے دان ہے یا ردی کی ٹوکری !کتنی سنگ دل ہو تم۔ نہیں نہیں تم ایسا ہر گزنہیں کرسکتیں ۔ ہم جو اب تک کتابوں ، کاپیوں اور کاغذات کو دو حصوں میں تقسیم کرچکے تھے ۔ ایک حصہ وہ تھا جو ہم نے محفوظ کرنے کی غرض سے رکھا تھاجس کا بوجھ قدرے کم تھااوردوسراحصہ کافی بھاری جو ضائع کرنے کے واسطے رکھا تھا۔اس میں زیادہ تر وہ کتابیں اور کاپیاں تھیں جو دور ان تعلیم ہمیں جان سے زیادہ عزیز تھیں،بعض کتابیں تو ان دنوں دستیاب نہ تھیں،ہم نے جان کی بازی لگا کر انھیں حاصل کیا تھا۔اب ہم ان سے سوتیلا سلوک کرنے چلے تھے۔گزشتہ سے پیوستہ کورس کی کتابوں کے ٹائیٹل پرنگاہ پڑتی توہمیں اس مضمون کے اساتذہ،ہم جماعت اور کالج اتنی ہی شدت سے یاد آنے لگتایہ کتابیں تو ہمیں ماضی کا البم لگتیں۔وقت گردانی کرتے کرتے خاصا وقت ہوگیا تھا۔جوں جوں ہم آگے بڑھتے گئے ہم پرمنکشف ہو اکہ دنیا میں ان سے قیمتی اور نادر خزانہ کوئی نہیں،لہذا اب ہم نے کتابوں کو سمیٹنا شروع کر دیا ۔یہ علم کا سودا یہ رسالے یہ کتابیں۔
ترک تعلق کا ارادہ ترک ہو چکا تھا۔وہی کتابوں کو جو ہمیں ردی محسوس ہورہی تھیں ہم نے انہیں سینے سے لگا لیا۔ اب ہاتھ تیزی کے ساتھ چل رہے تھے فجر کی اذان کانوں میں رس گھولنے لگی صبح کی سپیدی نموادر ہونے کو تھی ہم نے دیکھا کہ محنت اور توجہ نے کتابوں کی الماری کو سمیٹ کر قابل توجہ بنادیا ہے ۔ کتابیں سلیقے اور قرینے سے رکھیں تو مزید بلکہ مزید کتابوں کی جگہ بن گئی ہے۔
الماری ہمیں شاباشی دے رہی تھی اور ہم مسکرا رہے تھے۔