“خالی دامن”

ربیع الاول میرے پیارے  نبی کی ولادت و وصال کا مہینہ ہے۔اس مہینے کا نام سن کر ہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا خیال ذہن میں آجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان وشوال کے علاوہ اس مہینے کے چاند کی مبارکبادیں بہت پرجوش طریقے سے سوشل میڈیا پر نظر آتی ہیں  اور مہینے کے آغاز سے قبل ہی  شہر بھر میں روشنیاں دکھائی دیتی ہیں ان روشنیوں کو دیکھ کر یہ سوال ذہن میں بار بار گردش کرتا ہے کہ کیا واقعی ان بتیوں ، روشنیوں اور جگہ جگہ سے گونجتی نعتوں کے اہتمام سے میرے نبیﷺ خوش ہونگے؟؟  وہ جو امت کے لئے راتوں کو روتے تھے اور سخت پتھریلے بستر پر سوتے تھے۔۔۔ دین کے لیے دن کو تبلیغ تو رات کو دعاؤں میں مصروف اپنا مشن، اپنے عظیم مقصد کو پورا کرنے میں کوشاں رہتے تھے  کیا وہ ہماری ان میلاد کی محفلوں سے خوش ہونگے؟؟ جن کا ان کی تعلیمات میں ذکر تک نہیں!  انہوں نے ہمیں جو ہدایات دیں ، جو طریقہ زندگی بتایا۔۔۔۔ کیا وہ میں نے اپنایا ؟ کیا میرا وطن، میرا شہر اسی بتائے گئے ضابطہ حیات پر کاربند ہے؟  یہ سوچ ایسی تھی کہ میرا سر شرم سے جھک گیا اور میں خود سے استفسار کرنے لگی کہ میں جو اس آخری نبی کی امتی ہوں  کیا  روزجزا کے دن صرف نبی کے امتی ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیں جاؤں گی؟ جب خدا تعالی نے نوح   علیہ السلام  کے بیٹے ، لوط علیہ السلام کی بیوی، ابراہیمعلیہ السلام کے باپ اور ہمارے محبوب نبیﷺ کے چچا تک کا سزا و جزا کا معاملہ رشتے اور ناطے کی بنیاد پر نہ کیا تو میں امتی ہونے پر کیسے چھوڑ دیں جاؤں گی؟؟ اور امتی بھی وہ  جو صرف اپنے نبی پر خوشیاں منا رہا ہے جیسے ابوجہل نے منائی تھی۔۔  مگر اس کی طرح میں نے بھی  اپنا عمل نہ بدلا پھر زبان سے تعریفوں کے پل باندھنے کا کیا فائدہ؟ اگر اس شخص کی بات  ہی نہ مانیں۔۔۔ اس کے بتائے اصولوں پر ہی عمل نہ کیا ۔۔۔۔ پھر کیسے روزحشر میری سفارش ہوگی ۔۔۔ جب ہمارا رب العزت جو سب سے اعلی منصف ہے۔۔۔ حساب کتاب کرے گا تو میری کس درجے پر معافی ہوگی ؟ جب میرے پاس نامہ اعمال میں کوئی نیکی  نہیں بلکہ صرف یہ ظاہری جشن ہوں گے  یہ سب سوچ کر لگا کہ میں تو خالی دامن ہوں۔۔۔۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اس بار ربیع الاول پر جب نبی کا نام ذہن میں آئے تو ان بے جا  طور طریقے  اور جشن میں پڑنے کے بجائے  اپنے نبی کی سنت و شریعت پر پر عمل کرکے اپنے آپ کو خالی دامن ہونے سے بچاؤں گی۔۔۔ ان شااللہ!!!

جواب چھوڑ دیں