ایک بہت ہی مشہور کہاوت ہے کہ دنیا مکافات عمل ہے آپ کسی کی راہ میں پتھر رکھیں گے ، وہ پہاڑبن کر آپ کے آگے آئے گا۔ ہم آج کل دیکھ رہے ہیں 126 دن دھرنا دینے والے، ملک میں آگ لگانے کی ترغیب دینے والے ، بجلی کے بل جلسہ گاہ میں پھاڑنے والے ، کسی اور کے دھرنے اور مارچ سے کتنے پریشان ہیں۔تحریک انصاف کی حکومت کا اصل مسئلہ 2018 کے الیکشن سے پہلے کی عمران خان اور اُن کے موجودہ وزراء کی بہت بڑی باتیں اور وعدے ہیں۔ وہ گو گو کے نعرے جو پاکستانی سیاست میں اُن کا تحفہ ہے ، سود سمیت عوام اُن کو واپس کر رہی ہے۔
عمران خان جب الیکشن جیت کر آئے ، پاکستان کی عوام خصوصی طور پر نوجوان بہت پُر امید تھےـ اُن کو اس بات کا یقین تھا کہ عمران خان نیا پاکستان بھی بنائیں گے ، اور چورں سے مُلک کا لوٹا ہوا پیسہ بھی واپس لیں گے۔مُلک میں نیا معاشی نظام متعارف ہو گا، جہاں امیر امیر تر نہیں ہو گا اور غریب غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور نہیں ہو گا۔ٹیکس کا نظام شفاف ہو گا ، پاکستان بیرونی ممالک سے قرضہ نہیں لے گا ، علاج اور تعلیم ہر امیر غریب کو یکساں میسر آئے گا ۔
لیکن یہ سب باتیں باتیں ہی رہیں ، حالات بدتر سے بد تر ہو گئے۔ مُلک میں تاجر ہڑتال کر کے بیٹھے ہیں، مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ سڑکوں پر ہے۔ڈاکٹرز اسپتال بند کر کے سراپا احتجاج ہیں ۔ لیکن عمران خان کی نہ تو تقریر بدلی اور نہ ہی سیاست کا طریقہ، تحریک انصاف نے حکومت میں آتے ہی احتساب کا نعرہ لگایا اور اس بات میں کوئی شک نہیں احتساب جمہوریت کا لازمی جزو ہے ، عوام میں عمران خان کا احتساب کا نعرہ بہت مقبول ہوا اور عوام نے بھرپور ساتھ بھی دیا لیکن خان صا حب احتساب میں اتنا آگے نکل گئے کہ اُسی عوام کو احتساب انتقام لگنے لگ گیا اور اُس انتقام کے نتیجے میں ریاست پاکستان کے ہاتھ میں کچھ نہیں آیا۔
نواز شریف کو 8 ہفتوں کی ضمانت مل گئی اور میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں وہ ایک پیسہ دیے بغیر ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ پیچھے رہ جائیں گے مولانا فضل الرحمٰن ، وہ اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہی اپنا مقصد حاصل کر چکے ہیں۔ فضل الرحمٰن ، جن کی سیاسی حیثیت آج سے ایک سال پہلے کچھ بھی نہیں تھی اور اُن کے نمائندے بھی بہت کم ٹی وی پر دیکھائی دیتے تھے لیکن پچھلے ایک ماہ سے ہر طرف میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ اس لیے میرے خیال کے مطابق وہ سیاسی طور پر زندہ ہو چکے ہیں اور ایسے وہ اپنا مقصد حاصل کر چکے ہیں۔
حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور عمران خان کے وزیر اور مشیر پتہ نہیں کون سی کارکردگی دیکھا رہے ہیں کہ وہ مطمن بیٹھے ہیں ـ میڈیا ہاؤسز کو آزادی مارچ کو کوریج دینے سے ہی منع کر دیا ہے ۔ مولانا فضل الرحمٰن کتنے لوگ لے کر آ رہے ہیں ، اور کتنے دن اسلام آباد میں بیٹھیں گے ، اس سب سے پہلے اس بات کا تعین ضروری ہے کہ وہ کیوں اور کس کے کہنے پر آ رہے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں ہمیشہ وہی طاقتیں زہن میں آتی ہیں جو عمران خان کو انگلی پکڑ کر لائی تھیں ، کیوں کہ اُن کی مرضی کے بغیر کوئی نہ تو اسلام آباد آ سکتا ہے اور نہ ہی دھرنہ دے سکتا ہے۔ اور عمران خان نے اگر یہ سال انتقام کے سیاست کی بجائے عوام کی فلاح اور اُن کی خوشحالی کے لیے کچھ کیا ہوتا تو ایسے دھرنے خود بخود ٹھس ہو گئے ہوتے ، باقی ابھی بھی وقت ہے سنبھل جائیں۔