تاریکی ہے کہ بڑھتی جارہی ہے ۔نقیب اللہ کو جب پولیس کی وردی میں ملبوس ، کچھ ظالموں نے گولیاں ماری ہوں گی ،توا س نے بے بس نگاہوں سے ایک مرتبہ آسمان کی جانب دیکھ کر ، اپنے رب سے کوئی شکوہ تو ضرور کیا ہوگا ۔پولیس کے جوانوں سے ان کے تشدد کے بارے میں استفسار کرنے والے ، صلاح الدین کی بے جان آنکھوں نے بھی ہمیں یہ بتایا تھا کہ دیکھ لو ”تاریک راہوں ”میں مارے جانے والے کیسے ہوتے ہیں اور آج جب سانحہ ساہی وال کے ملزمان عدالتوں سے بری ہوگئے ہیں ، تو ان کو ”عباس تابش ” کی زبان میں یہ کون سمجھائے گا کہ
”عدالت سے بری ہونا بری ہونا نہیں ہوتا
معافی مل بھی جائے تو پشیمانی نہیں جاتی ”
ان ”باعزت بری” ہونے والے ملزمان کی آنکھوں کے سامنے کبھی تو وہ بچے آئیں گے ،جن کے سامنے انہوں نے ان کے والد ین کو ناحق قتل کیا تھا ۔سانحہ ساہی وال کے ملزمان کی بریت پر اگر کوئی حیران ہے ، تو وہ اس دھرتی کا سپوت ہی نہیں ہے ۔حیران تو انہیں ہونا چاہیے جو ایک مثالی معاشرے میں رہتے ہوں ۔ہمارے اردگرد تو ظلم نے گھیراڈال رکھا ہے ۔یہاں ہر گلی میں نقیب اللہ ،صلاح الدین ،محمد خلیل ،نبیلہ اور ان کے چھوٹے بچے موجود ہیں ،جو رات اپنا سر سلامت دیکھ کے آنکھ موند لیتے ہیں کہ آج کا دن تو خیر سے کٹ گیا کل کی خدا جانے ۔ہم ایک ایسے معاشرے میں زندہ ہیں ،جہاں کوئی کسی سے محفوظ نہیں ۔جس کے پاس لاٹھی ہے بھینس بھی اسی کی ہے ۔یہ طاقتوروں کا معاشرہ ہے اور یہ کمزوروں کا قبرستان ہے ۔یہاں طاقتور مدعی بھی خود ہوتاہے ،وکالت بھی وہی کرتا ہے ، اور پھر فیصلہ بھی وہی سناتا ہے ـ یہاں کمزور ، مظلوم بھی ہوتا ہے ـاس کا کوئی وکیل بھی نہیں ہوتا اور فیصلہ بھی اس کے خلاف آتا ہے ۔
ساہی وال میں بیٹی اور اہلیہ کے ساتھ اپنے دیگر بچوں کے سامنے مارے جانے والے محمد خلیل کو پہلی مرتبہ اس وقت قبر میں اتارا گیا تھا ،جب اس کا قتل ناحق ہوا تھا ، لیکن اس کی قبر پر مٹی آج ڈالی گئی ہے ۔’ریاست مدینہ ” کے حکام نے دعوے کیے تھے کہ ”دور ظلمت” بیت گیا ہے، یہ ایک نیا پاکستا ن ہے ، یہاں ظلم بچے نہیں جنے گا ۔ یہاں وہ پھول کھلیں گے ، جن کی خوشبو ہمیشہ تازہ رہے گی ۔یہاں کسی کے لیے زندگی وبال نہ ہوگی اور جینا محال نہ ہوگا،یہاں انصاف کا بول بالا ہوگا اور ظلم کا منہ کالا ہوگا ۔ میرے کانوں میں آج بھی کچھ وزراء کے جذبات میں ڈوبے ہوئے بیانات گونج رہے ہیں ،جن میں وہ کہہ رہے تھے کہ وردی میں ملبوس محمد خلیل کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا ۔ماں باپ کو بچوں کے سامنے مارا گیا تھا ۔اس زخمی بچی کے آنسو آج بھی دل پر گرتے ہیں ، جو کہہ رہی تھی کہ انہوں نے ہمارے امی ابو کو مار دیا ۔ لاتعداد وڈیوز موجود تھیں ،جن میں صاف نظر آرہاتھا کہ واقعہ کس طرح پیش آیا ۔جس زاویے سے چاہے کوئی بھی دیکھ لے ، قاتل بالکل سامنے تھے لیکن پھر وہی کہانی دوہرائی گئی ،جو ہمیشہ سے یہاں دوہرائی جاتی رہی ہے ۔سب کچھ آئینے کی طرح صاف تھا تو اس پر کیس چلنے کے دوران اتنی گرد کہاں سے آگئی ،کہ سب کچھ دھندلا کر رہ گیا۔جب فیصلہ سنایاجارہا تھا تو وہ حکومتی وزراء کہاں تھے ، جو کہتے تھے کہ ساہی وال میں جو بربریت ہوئی ہے اس کا حساب لیا جائے گا ۔وہ کہتے تھے کہ ”انصاف ہوگا اور ضرور ہوگا” اور پھر سب نے دیکھا کہ ”انصاف ہوا اور خوب ہوا ”۔
صلاح الدین کا والد کہتا تھا کہ اس کا بیٹا ذہنی مریض ہے ، اور پولیس کہتی تھی کہ وہ اے ٹی ایم مشین سے رقم چرانے والا ایک ملزم ہے ۔اس کا بوڑھا باپ کمزور تھا ، اس لیے ہار گیا ۔صلاح الدین بھی ناتواں تھا ، اس لیے ناحق مارا گیا ـ اس کی مردہ آنکھوں میں آخر تک یہ سوال تھا کہ ”تم لوگوں نے آخر اس طرح مارنا کس سے سیکھا ہے ”۔ ”ریاست مدینہ ” میں صلاح الدین کے قاتل بھی بچ گئے ۔اس کا باپ ایک 70سال کا بزرگ ہے ،اپنے گاؤں کے لیے اسکول اوررابطہ سڑک کا وعدہ لے کر اس نے اپنے بیٹے کا خون معاف کردیا ـ یہاں صلاح الدین کے خون کا حساب ہوا ، وہاں ”طاقت” کا ہاتھ مزید مضبوط ہوا ۔وزیر ستان کے سنگلاخ چٹانوں میں رہنے والے نقیب اللہ کا باپ بھی آج تک کبھی کراچی اور کبھی اسلام آباد میں انصاف مانگتا نظر آتا ہے ۔ماڈلنگ کا شوقین خوبرو جوان نقیب اللہ کراچی کی سڑکوں پردہشت گرد کہہ کر مارا گیا ۔اخبار میں شہ سرخیاں بھی لگیں اور پھر اچانک سب کچھ کھل کر سامنے آگیا ۔وہ دہشت گرد نہیں تھا ۔اس کے ساتھ بدقسمتی یہ ہوئی کہ اس کے پاس چند پیسے آگئے تھے ، اس لیے کچھ ”لاڈلوں” نے عدالت لگا کر اس کا فیصلہ سنادیا ۔ نقیب اللہ کا خون آج بھی تازہ ہے ، اور اس خون کی لالی ہمارے معاشرے کو آج بھی منہ چڑا رہی ہے ۔اسی طرح سانحہ ساہی وال کیس کے فیصلے نے ثابت کردیا ہے کہ اس ملک میں ناحق مارے جانے والے ہی اصل میں قصور وار تھے ۔ ان کا جرم یہ تھا کہ وہ کمزور تھے ،وہ لاچار تھے ،وہ رعایا تھے ، ،وہ کمی تھے ، وہ زندہ رہنے کے حق دار ہی نہ تھے ۔ان کے لیے لازم تھا کہ طاقت کے نشے میں چور کوئی بھی فرعون ان کو تختہ مشق بنائے تو وہ آہ نہ بھریں ، اور اپنی نسلوں کو کہہ جائیں کہ”وہ رائیگاں تھے ،اس لیے ان کا خون بھی رائیگاں جانے دیا جائے ”۔
آج اس مملکت خدادداد میں نقیب اللہ کے باپ ،محمد خلیل کے بچوں اور صلاح الدین کے بزرگ والد کے لیے فیصلہ سنا دیا گیا ہے ،کہ یہاں ہمیشہ طاقتور راج کرے گا ۔ یہاں میرے اور آپ جیسے” نقیب اللہ ،صلاح الدین اور محمد خلیل” کے لیے یہ ثابت کیا جاتا رہے گا ”مقتول خود خنجر پر گرا تھا ” لیکن مجھے اصل دکھ محمد خلیل کے زندہ بچ جانے والوں بچوں کا ہے ۔ مجھے نہیں علم کہ لوگ ان سے کیا کچھ کہہ رہے ہوں گے ۔ شاید کوئی یہ کہہ رہا ہو کہ ان کے چچا نے اپنے بھائی کے خون کا سودا کرلیاہے ۔ کوئی ان کو سمجھا رہا ہوگا کہ ہم کمزور لوگ ہیں، وہ طاقتور ہیں ۔اس لیے اب خاموشی ہی بہتر ہے ۔حکومت کہہ رہی ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل میں جائے گی ، لیکن نجانے کیوں مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ محمد خلیل کے بچے یتیمی کا درد سنبھالے یہ سوچ رہے ہیں کہ ”کاش اس روز باقی بچ جانے والی گولیاں ان کو ماردی جاتیں ”۔