یہ شادی بھی کتنا عجیب اور اُلجھا ہوا بندھن ہے، جو نہ جانے کتنے وعدوں اور کتنی قسموں کی بنا ٕ پر دو دلوں کو آپس میں مظبوطی سے جوڑے رکھتا ہے۔ لیکن تعجب کی بات تو یہ ہے کہ، اُن وعدوں اور اُن قسموں کو نبھانا محض صرف ایک عورت کی ذمہ داری بن کر رہ جاتی ہے، کیوں کہ مرد صرف گھر کے اخراجات اور اولاد کی ذمہ داریوں کو نبھا کر خود برالذمہ ہوجاتا ہے ، یوں عورت اپنی ذندگی کے باقی تمام معاملات میں تنہا رہ کر اپنی ہر جنگ خود لڑ رہی ہوتی ہے۔
دیکھا جائے تو ہر قدم پر وہ کئی آزمائشوں سے گزر کر کسی نہ کسی طرح اپنی ذات کو ثابت کررہی ہوتی ہے ، یا پھر یوں کہا جائے کہ دل و دماغ کے بیچ ایک ایسی جنگ لڑ رہی ہوتی ہے جہاں وہ اپنی ہی تلاش میں کہیں دوڑتی بھاگتی ، تھک ہار کر ایک ہی طرز میں زندگی بسر کررہی ہوتی ہے ۔ یہاں تک کہ اپنی ذندگی سے جڑے تمام رشتے نبھاتے نبھاتے کہیں نہ کہیں اپنی ہی ذات کو فراموش کیے وہ ایک ایسے مجسمے کی مانند بن کر رہ جاتی ہے جس کا وجود کسی خوشی، غم، دکھ، سکھ، یہاں تک کہ کسی کے چاہے جانے کے احساس تک سے عاری ہو جاتا ہے۔ وہ سب کچھ بھول کر ،اپنی حسرتوں کی تدفین کیے اگر یاد رکھتی ہے تو محض اتنا کہ اُسے اپنے مجازی خدا سے ہر حال میں وفا کرنی ہے ، اور یہی وہ صلاحیت ہے جو مرد اور عورت کے بیچ بہت بڑا فرق ہے ، کیوں کہ وہ ایک عورت کی ہی ذات ہے ،جو مرد کی تمام تر خامیوں کے باوجود اُس کو سچے دل سے قبول کرتی ہے اور تاحیات وفا کرتی ہے ۔ مگر افسوس کہ وہ پھر بھی اُس مرد کے دل تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہ جاتی ہے ، شاید اِس لیے مرد کبھی بھی ایک عورت کے ساتھ وفا نہیں کر پایا ۔ ہے نا اِک عجیب بندھن ، جس میں محض ایک ہی ذات تمام عمر گِھس کر پِستی رہتی ہے ؟
اور پھر ہمارے سماج کا کڑوا سچ بھی تو یہی ہے کہ عورت صحیح ہو کر بھی غلط، پاک دامن ہوکر بھی بد کردار، صاف گو ہو کر بھی بد فطرت کہلائی جاتی ہے ، اور کئی بار بنا قصور کے سزا بگھت کر عمر گزار دیتی ہے تو کبھی جرم سے بڑھ کر سزا بھگتی رہتی ہے۔ لیکن جب کوئی مرد اُس رشتے میں کوتاہی و بے وفائی برتتا ہے ، تو یہ معاشرہ ایسے مردوں کی ڈھال بن جاتا ہے ۔ تب کیوں یہ سماج ایسے مردوں کے لیے گھناؤنے الفاظ کا چناؤ نہیں کرتا ؟ یہ سب محض عورت کے ساتھ ہی کیوں ؟ شاید اِس لیے کہ مرد پر وفا لازم نہیں، اور وہ آزاد وجود ہے۔
عورت تو وفا کا پیکر ہے ، جو ہر قدم پر مرد کا ساتھ نبھاتی ہے، تاحیات وفا کرتی ہے، ایک مرد کو خوش رکھنے کی خاطر ، وہ اُس پر اپنا آپ نچھاور کردیتی ہے، محبت کے رشتے سے لے کر ،نکاح جیسے بندھن کو بھی ایک عورت ہی نبھاتی آئی ہے، مگر پھر بھی وہ ایک مرد کے دل میں گھر کرنے میں ناکام رہ جاتی ہے۔ اپنی تمام عمر وہ مرد کی مرضی کے مطابق، اُس کی خوشی اور ناراضگی کا خیال رکھتے ہوئے جیتی ہے۔ کبھی جھک جاتی ہے تو کبھی سمجھوتہ کر لیتی ہے۔
کتنی بے غرض محبت ہے ،کہ وہ مرد کی ذندگی میں اپنی حیثیت جانے بنا ہی لبوں پر ہر وقت مسکان سجائے اپنے مجازی خدا کی منتظر رہتی ہے۔ اپنے دل میں ادھوری حسرتیں لیے وہ یونہی صدیاں گزار دیتی ہے ، مگر لبوں پر شکوہ تک نہیں لاتیـ پھر یونہی تمام خلوص،محبت اور وفا لٹانے کے باوجود وہ خود کو سب کے بیچ بھی تنہا محسوس کرتی ہے ۔ وہ ایک ایسی بے بس ہستی کی مانند بن کر رہ جاتی ہے ، جو پیار،اظہارِ محبت کی صرف چاہ کرسکتی ہے ، لیکن اُسے حاصل نہیں کرسکتی ، اور اپنی اداس آنکھوں میں ایک طویل انتظار لیے اپنی تمام عمر گزار دیتی ہے۔
عورت ایک مرد کی خاطر کیا کچھ نہیں کرتی ،اور بدلے میں اُسے پیار کے دو بول اور ایک مضبوط حصار دینے کی بجائے نفرت آمیز اور تلخ کلمات سے نوازا جاتا ہے۔ اُس کی تمام قربانیوں کا مذاق بنایا جاتا ہے، یہاں تک کہ ہر قدم پر اُس کی تذلیل کی جاتی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ذندگی کا اِک طویل وقت گزارنے کے بعد بھی مرد ایک عورت کے دل کو نہیں سمجھ پاتا۔ اُس کی ذات کو کرچیوں میں بکھیر سکتا ہے ، لیکن تکمیل نہیں کرسکتا۔
کیوں ؟ کیا عورت مرد کے لیے محض ایک کٹ پُتلی ہے ، یا پھر ایک مجسمہ ، جو ہر تکلیف اور زخم کو محسوس کرنے سے عاری ہو؟ آخر ایک عورت ہی کیوں سمجھوتے کی بنا پر اپنی پوری ذندگی ایک مرد کے مطابق گزار دیتی ہے؟ ہر لمحہ مخلصی کے ساتھ رشتہ نبھاتے ہوئے بھی اُس کے حصے میں آنسوؤں کے سوا کچھ نہیں آتا۔ کوئی مرد کبھی یہ جاننے کی کوشش تک نہیں کرتا کہ ، جو وجود ہر گھڑی ایک مصنوعی مسکراہٹ لبوں پر سجائے ، محض دوسروں کا خیال کرتا آیا ہے، اُس کے سینے میں بھی کچھ درد پوشیدہ ہوں گے، اُن سہمی و اداس آنکھوں نے بھی ، کچھ سپنے بُنے ہوں گے، وہ عورت بھی ایک انسان ہی ہے جو دل میں خود کو چاہے جانے کی خواہش رکھتی ہے ، پر کبھی اِس خواہش کو اپنے محبوب و عشقِ مجازی پر عیاں نہیں کرتی ، کہ کہیں ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر اُس کی ذات کو پامال نہ کردیا جائے۔ کیا یہی ہے ایک عورت کی ذندگی ہے ، جس میں اُس کے لیٕے پیار،محبت،عزت اور اظہار جیسے جذبات محض کہانیوں کی حد تک شامل ہیں ؟ جب کہ حقیقت سے اِس کا کوئی تعلق نہیں ۔
ہمارے معاشرے میں عورت کو صرف اپنے اندر برداشت و صبر پیدا کرنے کا درس دیا جاتا ہے۔ شعور کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اُسے اپنی زات کو فراموش کر کے ذندگی جینے کا ڈھنگ سکھایا جاتا ہے ۔ اپنی روح پر لگے زخموں کو دل میں دفن کرنے کا ہنر سکھایا جاتا ہے۔ غرض کہ ، عورت ذات کو اپنی خواہشات کی تدفین کرنا سکھایا جاتا ہے ۔ باوجود اِس کے، ہر دور میں عورت نے اپنے تمام رشتوں کو ہمیشہ میانہ روی کےساتھ نبھایا ہے ، مگر افسوس کہ آج تک کبھی بھی کوئی عورت مرد کے دل تک مکمل رسائی حاصل نہیں کر سکی ، جس کا ثبوت ہمارے معاشرے میں رونما ہونے والے وہ تمام واقعات ہیں جن میں خواتین کے ساتھ ناچاقی و نا انصافی برت کر اُن کے سروں سے چھت تک چھین لی جاتی ہے ، اور وہ بے بس خواتین اپنے حقوق کی جنگ تک نہیں لڑ سکتیں۔
سچ ۔۔۔۔بہت کٹھن ہے ، ایک عورت کی ذندگی جو ہر لمحہ دل میں حسرتوں کا سمندر لیے ،محض نئی صبح کی نوید کے انتظار میں ذندگی گزار دیتی ہے۔