تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان
ان دنوں جب افغانستان، نائییجیریا اور پاکستان کے سوا دنیا بھر میں پولیو کا ایک کیس بھی موجود نھیں، وطن عزیز میں رواں سال جنوری سے اب تک اس موذی مرض کے 72 کیسز سامنے آئے ہیں، حالانکہ سال2017ء میں یہ تعداد محض آٹھ اور سال 2018ء میں صرف بارہ تھی۔نسل نو کو خطرناک پولیو وائرس کے سبب معذوری سے بچانے اور دنیا بھر سے پولیو وائرس کا خاتمہ یقینی بنانے کے لیے اس مرض سے آگاہی انتہائی ضروری ہے ۔ اس خطرناک مرض کا علاج صرف حفاظتی تدابیر کے تحت پلائے گئے پولیو ویکسین کے دو قطرے ہی ہیں ، جو کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں کو باقاعدگی کے ساتھ پلانے سے اس مرض کا ممکنہ وائرس مر جاتا ہے اوربچے اس مرض سے ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں۔ جب کہ پولیو کے خطرناک وائرس کے حملہ آور ہونے کے بعد اس بیماری کا کوئی علاج نھیں، اس مرض کا شکار زندگی بھر کے لیے اپنے خاندان اور معاشرے پر بوجھ بن کے رہ جاتا ہے ، اور اگر متاثرہ فرد بیٹی ہو تو ماں باپ سارے عمر رونے کے سوا کچھ نھیں کر سکتے ۔ ماہرین صحت کے مطابق خطرناک پولیو وائرس (Poliomyelitis) اعصابی( نروس) سسٹم کو برباد کرتے ہوئے دیکھتے ہی دیکھتے ٹانگوں سے معذور کر کے انسان کو زندگی بھر کے لیے اپاہج بنا ڈالتا ہے ۔ پولیو متعدی بیماری ہے ، اس کا وائرس منہ کے راستے انسان کے جسم میں داخل ہو کر انتڑیوں میں پرورش پاتا ہے، اور اس وائرس کی تعداد جسم میں جا کر کئی گنا بڑھ جاتی ہے، یہ متاثرہ مریض کے گلے اور آنتوں میں موجود رہتا ہے۔ عام طور پر یہ وائرس ایک متاثرہ شخص کے پاخانہ (poop ) کے ساتھ رابطے کے ذریعے (پیٹ سے خارج ہونے والی گیس) سے پھیلتا ہے ، جو ہر چیز کو آلودہ کر دیتا ہے اور متاثرہ فرد کے جسم سے خارج ہو کر با آسانی کسی دوسرے انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔یہ متاثرہ فرد کی چھینک یا کھانسی کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے۔ پولیو کا موذی وائرس متاثر ہ شخص یا بچے کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی پر اثر انداز ہوتا ہے۔اس وائرس کا شکار زیادہ تر پانچ سال کی عمر تک کے بچے ہوتے ہیں۔90 فیصد مریضوں میں اس مرض کے شروع ہونے کا معلوم ہی نھیں ہوپاتا ، باقی10فیصدمیں ابتدائی طور پر اس سے بخار، سر درد،الٹیاں،گردن کا اکڑنا اور ٹانگوں میں درد ہونا عام علامات ہیں۔
اس مرض سے بچنے اور لوگوں کو اس مرض کے سبب معذوری سے بچانے کے لیے 25اپریل1954ء کو پہلی بارہ امریکہ میں پولیوویکسین کاوسیع پیمانے پر تجربہ کیا گیا ، اور 12 اپریل1955ء کومشی گن یونیورسٹی میں ڈاکٹر تھامس فرانسسزجونیئر نے اپنے رفقاء کی موجودگی میں اس کی کامیابی کا اعلان کیا ، اور بتایا کہ یہ حفاظتی ویکسین 80سے 90 فیصد تک کامیاب رہی ہے۔اسی دن امریکی حکومت نے اس کے عام استعمال کی اجازت دے دی۔یونیسیف، ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن، سی ڈی سی اور روٹری انٹرنیشنل دنیا کے چار سب سے بڑے ڈونرزہیں ، انھوں نے 1988ء میں طے کیا کہ جلد ازجلد دنیا سے پولیو کا خاتمہ کیا جائے گا۔1988ء میں125ملکوں میں 350,000سے زائید بچے پولیو سے معذور ہوئے ، جب کہ ان عالمی اداروں کی کاوشوں کی بناء پر 2013ء میں صرف تین ملک (پاکستان، افغانستان اورنائیجیریا) میں یہ مرض باقی رہ گیا تھا ، جہاں اس سال کے دوران میں ان تین ملکوں میں کل160مریض کنفرم ہوئے ، جب کہ پوری دنیا میں رواں سال 406مریض سامنے آئے۔ اسی پولیو ویکسین کی بدولت 1988ء سے 2019 ء تک دنیا سے پولیو کا99فیصدتک خاتمہ ہوچکا ہے ، اس طرح ایک کروڑ بچوں کو معذور ہونے سے بچایا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نھیں کہ حکومت پاکستان پولیو کی مکمل خاتمے کے لیے سنجیدہ کوششیں کررہی ہے ۔ حکومت پاکستان پانچ سال سے کم عمر کے تمام بچوں کے لیے ہر تین ماہ بعد ’’قومی مہم برائے انسداد پولیو‘‘(NIDs) کا انعقاد کررہی ہے۔ یونیسف، عالمی ادارہ صحت، روٹری، ریڈ کراس ، ہلال احمر اور انسانی ہمدردی رکھنے والے اور سول سوسائٹی کے دیگر گروپوں سمیت بہت سے غیرملکی اور مقامی ادارے ان مہمات کی منصوبہ بندی اوران پر عمل درآمد کے لیے مدد کر رہے ہیں ، اور ان بچوں تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے جو سیکورٹی خدشات، گھر والوں کے انکار یا دیگر وجوہات کی بناء پر ماضی میں قطرے پینے سے محروم رہ گئے تھے، ایسے بچوں میں پولیو کی بیماری ہونے کے سب سے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ عالمی اداروں کے تعاون سے یہ مہمات اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک پاکستان اور دنیا بھر سے پولیو کا خاتمہ ممکن نھیں ہو جاتا۔ انسداد پولیو کے لیے سرکاری سطح پر کاوشوں کے ساتھ عوام کو بھی پولیو کے خاتمے میں تعاون کرنا چاہئے۔ملک سے پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے علماء کو بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے عوام کے ذہنوں میں موجود مختلف غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہیے ۔ یہ ویکسین تمام بچوں کے لیے محفوظ ہے، ہر خوراک پولیو کے خلاف بچے کی قوت مدافعت کو مضبوط کرتی ہے۔اس مرض کے مکمل خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ہر پانچ سال کے بچے کو پولیو ویکسی نیشن لازمی کروائی جائے ، اس کے ساتھ ساتھ صحت و صفائی پر خصوصی توجہ دی جائے ، بلاشبہ صفائی کے بہتر انتظام کے باعث بہت سی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔