حریم شاہ ٹک ٹاک ایک سنجیدہ مسئلہ

من حیث القوم ہماری قوم کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک قوم نہیں ہیں،بغیر سوچے سمجھے،بنا کوئی سمت متعین کئے اور اپنا کان دیکھے بغیر ہی کتے کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔ایک تربیت یافتہ باشعور قوم کا ثبوت دیتے ہوئے کتے کے پیچھے بھاگنے سے قبل ایک بار اپنا کان ضرور چیک کرلینا چاہئے کہ کیا واقعی کتے نے کاٹ لیا ہے یا پھر آپ کا واہمہ ہے۔گذشتہ روز مشہور پاکستانی ٹک ٹاک سٹار حریم شاہ نے پاکستانی دفتر خارجہ میں ایک وڈیو بنا کر اسے ٹک ٹاک میں ڈال کر پوری قوم کو اس غیر سنجیدہ مسئلہ کے پیچھے لگا دیا ۔یعنی کل سے پورا ملک مہنگائی،بیروزگاری ،برقی بلوں میں اضافہ اور دال چاول کے بڑھتے نرخوں کو چھوڑاسی ایک ٹک ٹاک پر ایسے بحث میں مصروف ہے جیسے کہ اس سے بڑا پاکستان میں کوئی مسئلہ ہی نہ ہو۔
اصل مسئلہ حریم شاہ کے دفتر خارجہ کے کمیٹی روم میں رسائی حاصل کر کے ایک ویڈیو بنا کر اسے ٹک ٹاک پر اپلوڈ کرنے کا نہیں،اس سے قبل بھی وہ وزیراعظم،وزیر خارجہ،وزیراطلاعات و نشریات اور پی ٹی آئی کی ایک اہم شخصیت جہانگیر ترین کے ساتھ اپنی تصاویر سماجی رابطہ کی ویب سائٹس پر اپلوڈ کر چکی ہے،اس سے بھی صرف نظر کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ وہ تمام شخصیات ہیں جو ایسی مقبول سماجی ٹائیکون ہیں جن سے کوئی بھی پاکستانی تصویر بنا کر سوشل میڈیا کی زینت بنانا قابل فخر سمجھ سکتا ہے،لیکن سوالوں کا ایک سوال یہ ہے کہ دفتر خارجہ کوئی عام نجی دفتر نہیں کہ جہاں کسی کی بھی رسائی ہو سکتی ہو اور وہ ایک ٹک ٹاک بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر دے،کوئی پرائیویٹ عمارت یا کسی پارک کی گزرگاہ نہیں کہ یہاں کوئی بھی منہ اٹھا کر یا ہر راہ چلتا شخص ایک تصویر یا وڈیو بنا کر پوری دنیا میں پھیلا دے،دفتر خارجہ کسی بھی ملک میں ایک حساس عمارت ہوتی ہے جس میں حساس موضوعات اور معلومات پر بحث کی جاتی ہے،بین الاقوامی پالیسیاں اور خارجہ حکمت عملی تیار کی جاتی ہے،اس عمارت میں پاکستان کا سب سے حساس ادارہ یعنی محکمہ خارجہ ایسے ایسے بل پر بحث وتمحیص کے بعد اسے منظور یا نامنظور کرتی ہے۔ یعنی ہر طور اور ہر پہلو ایک حساس ادارہ اور عمارت ہے تو پھر ایک عام سی لڑکی اس عمارت میں داخل کیسے ہوئی اور کسی کی اجازت سے؟یہ ایک سوالیہ نشان ہے جس کے جواب کے لئے میڈیا اور خود حریم شاہ نے پوری قوم کو اپنے پیچھے لگا رکھا ہے۔
حد تو یہ ہے کہ کل سے اسے ہر ٹی وی چینل پر بلا کر ایک ہی سوال کیا جا رہا ہے کہ تم اس بارے میں کچھ کہنا چاہوگی؟بار بار پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں مجھے اپنے وقت کی ایک حسین روسی رقاصہ کے انٹرویو کی ایک بات یاد آگئی کہ جب وہ سٹیج پرفارمنس کے بعد نیچے اتری تو اس سے ایک صحافی نے سوا ل کیا کہ آپ اپنی کارکردگی کے بارے میں کچھ کہنا چاہتی ہیں تو ا س نے برجستہ جواب دیا کہ اگر مجھے الفاظ کا سہارا لے کر ہی کچھ کہنا تھا تو مجھے سٹیج پر ڈانس کرنے کی کیا ضرورت تھی۔اگر حریم شاہ نے ہی یہ بتانا ہے کہ تم کیا کہنا چاہتی ہو تو اس کا جواب تو اس کے ٹک ٹاک میں موجود ہے۔میرے خیال میں حریم شاہ کی بجائے اس شخص کا پتہ چلایا جائے جو حریم شاہ کو دفتر میں لے جانے کا باعث بنا ورنہ اتنی اہم عمارت میں یہاں بغیر اجازت کوئی نہ جاسکتا ہو ایک عام سی لڑکی کی پہنچ کیسے ہو جاتی۔چونکہ یہ ایک حساس عمارت ہے تو اس کے چار واطراف سی سی ٹی وی ،چوکیدار،سکیورٹی اہلکار اور دفتر خارجہ میں کام کرنے والے سرکاری اہل کار موجود ہونگے، کیوں نہ ان تمام عناصر اور آلات کا استعمال کرتے ہوئے فوری تحقیق کر کے حریم شاہ کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے تاکہ آئندہ کسی اور کو ایسی جرات کا حوصلہ نہ ملے۔حریم شاہ کے اس ٹک ٹاک کو محض تفریح خیال نہ کیا جائے بلکہ ایک سنجیدہ مسئلہ خیال کرتے ہوئے بغیر کسی کمیٹی اور جائنٹ کمشن بٹھائے مسئلہ کو فوری اور ہنگامی بنیادوں پر حل کیا جائے کہ یہ حساس عمارت،حساس ادارہ کا حساس مسئلہ ہے۔حکومت پاکستان کو اسی سنجیدہ مسئلہ سمجھتے ہوئے فی الفور حل کرنا چاہئے۔
اب بات کرتے ہیں اس ٹاک ٹاک پر عوامی،حزب اختلاف ،سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر اٹھنے والے طوفان کی کہ اس سنجیدہ مسئلہ کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت مخالف یا بغض عمران میں ہم سب نے ایک غیرسنجیدہ خاتون کی سستی شہرت کے حصول کے لئے بنائی گئی ٹک ٹاک کو ریاست مدینہ کے ساتھ اس طرح منسوب کر دیا ہے کہ نعوذباللہ ریاست مدینہ ایک مذاق ہو،جمہوری ملکوں میں اختلاف رائے بلا شبہ جمہوریت کا حسن اور عوام کا حق ہوتا ہے لیکن اس حق کے استعمال میں ریاست مدینہ کی تضحیک میں شریک کیوں ہو رہے ہیں۔لہذا میری تمام پاکستانیوں سے استدعا ہے کہ سوال اٹھائیں،حکومت کی مخالفت کریں،عمران کی پالیسیوں پر تنقید کریں،دفتر خارجہ پر براہ راست سوال اٹھائیں،یہ آپ کا بنیادی حق ہیں لیکن ریاست مدینہ کے بارے میں ہوش کے ناخن لیتے ہوئے لفظوں کے استعمال کو مثبت رکھیں۔وگرنہ حریم شاہ میں اور ہم میں کیا فرق رہ جائے گا،اگر اس نے ٹک ٹاک بناتے ہوئے ملک کے حساس ادارے کو سنجیدہ نہیں لیا تو ہم کون سی سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، ہمیں اس مسئلہ کو سنجیدہ لینا چاہئے کیونکہ اس ملک کی بقامیں ہی ہماری بقا ہے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں