ہم وہ بدقسمت قوم ہیں ،جس کے نہ شکاری تبدیل ہوتے ہیں اور نہ ہی اس کے لیے بچھائے گئے جالوں میں کوئی تبدیلی آتی ہے ۔ہمارے حالات 72سال گزر جانے کے باوجود تبدیل ہونے کا نام ہی نھیں لے ر ہے ہیں ۔ملک کا سیاسی محاذ ایک مرتبہ پھر گرم ہوچکا ہے ۔اب کی بار دھرنے والوں کو ہی دھرنے کا سامنا ہے ۔مولانا فضل الرحمن تہیہ کرچکے ہیں کہ وہ اس حکومت کو گھر بھیج کر ہی دم لیں گے ۔برصغیر کی سب سے پرانی مذہبی سیاسی جماعت کے سربراہ کے طور پر ان کو قطعی طور پر غیر سنجیدہ انداز میں نھیں لیا جاسکتا ۔پی ٹی آئی کے وزراء کبھی مولانا کا مذاق اڑاتے ہیں ،تو کبھی ان کو کنٹینر پیش کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔حکومت ایک طرف مذاکراتی کمیٹی بناتی ہے تو دوسری جانب امیر جے یو آئی پر طنز کے تیر برسائے جاتے ہیں ۔مولانا فضل الرحمن کا آج وہ موقف ہے جو 2014میں عمران خان کا تھا ،اور عمران خان آج وہی بات کررہے ہیں جو اس زمانے میں مولانا فضل الرحمن کرتے تھے ۔ایک عجیب گورکھ دھندا ہے ،جو سمجھنے کا ہے اور نہ سمجھانے کا ہے ۔سب کے اپنے اپنے اصول ہیں اور سب کی اپنی اپنی منطقیں ،لیکن سب کچھ تبدیل ہونے کے باوجود ایک چیز جو آج تک تبدیل نھیں ہوئی ہے وہ عوام کی شکل میں موجود ان کے پیادے ہیں ،جو کبھی مذہب تو کبھی جمہوریت کے نام پر ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔
جس طرح پاکستان تحریک انصاف کی حکومت شتر بے مہار اور بے لگا م ہے ،اسی طرح مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ بھی تجسس سے لبریزہے ۔مولانا آخر چاہتے ہیں کیاہیں ؟یہ وہ سوال ہے جو آج کل ہر ایک کے زبان پر ہے۔ آپ مولانا سے لاکھ اختلاف کریں لیکن یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی عار نھیں ہے کہ ، اس وقت ملک میں ان سے زیادہ سیاست کے داؤ پیج جاننے والی کوئی اور سیاسی شخصیت نھیں ہے ۔ان کا ماضی بتاتا ہے کہ انہوں نے کبھی ”کریز” سے باہر نکل کر کھیلنے کی کوشش نھیں کی ہے ۔وہ بنیادی طور پر” ٹیسٹ میچ” کے کھلاڑی ہیں ، لیکن انہوں نے اچانک کھیلنے کا انداز تبدیل کرتے ہوئے ”ٹی ٹوئنٹی” کو ترجیح دینا شروع کردی ہے ، اور کھیلنے کے اس انداز نے ہی ”گیم ”کو بہت زیادہ سنسنی خیز بنادیا ہے ۔مولانا فضل الرحمن اس وقت اپنے تین فیصد مینڈیٹ کے ساتھ جہاں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں ، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کے امام بنے ہوئے ہیں تو وہیں محمود خان اچکزئی اور اسفندریار ولی بھی ان کے مقتدی ہیں ۔مولانا آج حاصل بزنجو کی بھی راہ نمائی کررہے ہیں تو بریلوی مکتبہ فکر کے شاہ اویس نورانی بھی ان کے ہمنوا ہیں ، اور یہی مولانا کا کمال ہے کہ اتنے مختلف الخیال لوگ ان کو اپنا سیاسی مرشد تسلیم کررہے ہیں ۔یہ تمام باتیں ایک طرف ، لیکن اصل میں مولانا کے مقتدیوں کے ذہنوں میں بھی واضح نھیں ہے کہ آخر وہ چاہتے کیا ہیں ، اور آخر ان کی جارحانہ اننگز کا مقصد کیا ہے ؟
جیسے جیسے مولاناکے آزادی مارچ کی تاریخ قریب آتی جارہی ہے ، اتنی تیزی کے ساتھ ان کا مزاج بھی تلخ ہوتا جارہا ہے ۔اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے ان کے حالیہ بیانات سن کر ایسا لگتا ہے کہ ماضی میں اداروں سے ٹکرا ؤ نہ کرنے کی پالیسی پر کاربند رہنے والے مولانا فضل الرحمن ، اب ”ٹی ٹوئنٹی ” سے منہ موڑ کر ”ٹی ٹین” کی طرف راغب ہوچکے ہیں، اور یہی خطرے کی اصل گھنٹی ہے ۔ بلاشبہ اس وقت پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) مولانا فضل الرحمن کی احتجاجی تحریک کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں ۔عمران خان سے تمام تر اختلافات کے باوجود ان جماعتوں کے مفاد میں یہی ہے کہ نظام چلتا رہے، کیوں کہ ان کو اگر کوئی ریلیف مل سکتا ہے تو وہ اسی سسٹم سے مل سکتا ہے ۔مولانا فضل الرحمن کی صورت حال یکسر مختلف ہے ۔اس وقت ان کے پاس گنوانے کے لیے کچھ نھیں ہے ، اس لیے وہ بلا خوف و خطر میدان میں اتر گئے ہیں اور ان کی دلیری کا یہ عالم ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی باؤنسرز پھینک رہے ہیں ۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن فیصلہ کرچکے ہیں کہ وہ نہ کھیلیں گے اور نہ کسی کو کھیلنے دیں گے ۔انہوں نے اپنے پتے بڑی خوبصورتی سے ترتیب دیے ہیں ۔وہ پارلیمنٹ میں چند نشستیں رکھنے کے باوجود اپوزیشن کے سب سے بڑے راہ نما بنے ہوئے ہیں ، اور پوری حزب اختلاف کو اپنی وکٹ پر کھلارہے ہیں ۔عمران خان کی وفاقی حکومت میں اتنی اہلیت نھیں ہے ،کہ وہ مولانا فضل الرحمن کو اسلام آباد آنے سے روک سکے ۔ پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ (ن) اور یگر جماعتوں کو مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دینا ہی ہوگا ، چاہے آخر میں آکر یہ ساتھ محض علامتی ہی کیوں نہ رہ جائے ۔
اصل سوال یہ ہے کہ آخر مولانا کے اس دھرنے کا انجام کیا ہوگا ؟ وزیراعظم عمران خان کسی صورت جے یو آئی کے مطالبے پر استعفیٰ نھیں دیں گے ، اور نہ کوئی ایسی صورت حال بنتی نظر آرہی ہے کہ جے یو آئی کے حکومتی مذاکراتی ٹیم سے مذاکرات کامیاب ہوجائیں اور مولانا اپنا احتجاج ختم کرنے کا اعلان کردیں ۔اس تمام منظر نامے میں مولانا کا احتجاج ، تصادم میں تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے ،جو اس وقت نہ ملک کے مفاد میں ہے اور نہ ہی جمہوریت کے لیے فائدہ مند ہے ۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جتنی غلطیاں کررہی ہے اور جس تیزی کے ساتھ عوام میں اپنی مقبولیت کھورہی ہے ،اس کو ہٹانے کے لیے کسی دھرنے یا تحریک کی ضرورت ہی نھیں ہے ۔پاکستان تحریک انصاف کے لیے پاکستان تحریک انصاف ہی کافی ہے ، اور اس نے ایک دن خود اپنے بوجھ سے گرجانا ہے ۔
ملک کو تصادم کی راہ سے بچانے کے لیے مولانا فضل الرحمن کو اپنے اصل گیم ”ٹیسٹ میچ ”کی طر ف واپس آنا ہوگا ۔”ٹی ٹوئنٹی” کا میچ ان کے مزاج سے لگا ؤ نھیں کھاتا ۔اس میں آؤٹ ہونے کے خطرات بھی زیادہ ہیں ۔اسٹیبلشمنٹ کو باؤنسر کرانے والے مولانا فضل الرحمن یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ایک اوور میں 2سے زائد باؤنسر کرانے پر”بال” کو ”نوبال” قرار دے دیا جاتا ہے، اور مولانا یہ بات بھی جانتے ہیں کہ جس گیم میں ”امپائرز” ہی موجود نہ ہوں ، وہاں فیصلہ ہونا ناممکن ہے ۔مولانا فضل الرحمن کو یہ بھی بخوبی احسا س ہوگا کہ وہ اس مرتبہ جو گیم کھیل رہے ہیں ، اس میں بات بہت دور تک جاسکتی ہے اور اتنی دور تک جہاں ”مولانا فضل الرحمن بھی مولانا فضل الرحمن کو نہ سمجھاسکیں گے ”۔مولانا فضل الرحمن زیرک کھلاڑی ہیں ۔ امید ہے کہ وہ ”گیم” کے قوانین کو نظرانداز نھیں گے ، کیوں کہ اس مرتبہ ان کے ”آؤٹ” سے پوری ٹیم ”آل آؤٹ” ہوسکتی ہے اور جمہوریت کا میدان ایک مرتبہ پھر سونا پڑسکتا ہے ۔