پاکستان کرکٹ بھی ہمارے سیاسی اکھاڑے سے کچھ مختلف نہیں ہے ۔ ہم لوگ جتنا اپنی سیاست اور سیاستدانوں پر نظر رکھتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہمارے جذبات و احساسات کرکٹ سے وابسطہ ہوتے ہیں یہ ایک ایسا کھیل ہے (اس کے علاوہ بھارت سے جنگ)جس پر پوری قوم ایک ہوجاتی ہے ۔ آج کل فیصل آباد جسے پاکستان کا مانچسٹر کہا جاتا تھا (اب تو سنے ہوئے مدت ہوگئی ہے)میں قومی ٹی ٹوئینٹی ٹورنامنٹ چل رہا ہے ۔ وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق پورے پاکستان کو چھ (۶) ریجنز میں تقسیم کیا گیا ہے اور اس طرح سندھ ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ، جنوبی پنجاب ، مرکزی پنجاب اورشمالی کی ٹیمیں تشکلیل پاگئیں۔ ان مقابلوں کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان کے تمام کھلاڑی اپنی بقاء کے لیے دستیاب ہیں جن کی وجہ سے ان مقابلوں کی رونق اور بڑھی ہوئی ہے ۔
پاکستان کرکٹ بورڈ یقینا اپنے ضابطہ کا پابند ہے اور اس طرح کے مقابلوں کا طے شدہ جدول شائع کیا جاتا ہے اور اس کے مطابق عمل درآمد کیا جاتا ہے۔اس بحث میں پڑنا ہمیشہ سے ہی وقت کے ضیاع سے زیادہ نہیں کہ کھلاڑی قابلیت پر آتے ہیں یا پھر پرچی پر آتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بہترین کرکٹ کھیلنے والوں کا پاکستان میں اتنا ذخیرہ ہے کہ چناؤ آسان نہیں ۔ پاکستانیوں میں کرکٹ کے شوق کی کوئی سرحد نہیں ہے ساحل سمندر سے جو شروع ہوتے ہیں تو سنگلاخ پہاڑوں کے دامن میں بھی کھیلتے دیکھائی دیتے ہیں۔ موجودہ پاکستان کی ٹیم میں بہت سارے ایسے ستارے موجود ہیں جن کا تعلق پاکستان کے دوردراز علاقوں سے ہے جہاں کرکٹ کھیلنا ہی نہیں دیکھنا اور سننا بھی دشوار ہوتا ہے ۔یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ انتخابی یا چناؤ کمیٹی کے لیے سولہ کھلاڑی چننا مشکل ترین کام ہے۔ یہاں محنت کے ساتھ قسمت کا بہت بڑا عمل دخل ہے کیوں کہ ہر کوئی وہاں تک رسائی نہیں رکھ سکتا جہاں پہنچ کر قومی ٹیم میں کھیلنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ جتنی محنت اتنا نتیجہ ضرور ملتا ہے لیکن جیسا کہ قسمت کا تذکرہ کیا جو کسی حد تک حتمی کردار ادا کرتی ہے۔
اس مضمون کی تحریر کے دوران ہی خبر موصول ہوئی کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد اب صرف ایک روزہ میچ کے کپتان رہ گئے ہیں ، اظہر علی ٹیسٹ ٹیم کی قیادت کریں گے اور ٹی ٹوئنٹی کی قیادت بابر اعظم کے سپرد کردی گئی ہے۔ یہاں اتنا ضرور لکھتا چلوں کہ بھلے سرفراز احمد سے ایک روزہ اور ٹیسٹ ٹیم کی قیادت لے لی جاتی لیکن انہیں آنے والے ٹی ٹوئنٹی عالمی کپ تک اس طرز کی کرکٹ کی قیادت میں رہنے دیا جاتا۔ ایک طرف کپتان کی ذمہ داری نبہانا کسی بھی کھلاڑی کے لیے آسان نہیں ہوتا ، چاہے دنیا کے کسی بھی ملک کی ٹیم ہو، پھر بابر اعظم ابھی اپنے بلے سے دنیا میں شور کر رہے ہیں ریکارڈ بنا رہے ہیں، اگر کپتانی نے ان کے اس سفر میں خلل ڈال دیا تو یہ ذمہ داری کون لے گا ۔ اپنے ملک کی قومی ٹیم کی قیادت کرنا کسی بھی کھلاڑی کا خواب ہوتا ہے لیکن اس خواب کی تعبیر کو سنبھالنا آسان نہیں ہوتا اور جیسا کہ سب ہی یہ کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ ابھی بابر اعظم کے بلے کو ریکارڈ بنانے دو کپتانی نے اس کے کیرئیر کو بریک لگادینی ہے امید ہے کہ کرکٹ بورڈ سے وابسط سوچ بچار کرنے والے ذہن اس فیصلے پر نظر ثانی ضرور کریں گے اور دنیا میں پاکستان کا نام بہت اونچا کرنے والے بابر اعظم کو ابھی قیادت جیسے بوجھ سے بچالیں گے۔
قومی ٹی ٹوئنٹی میں سندھ کی قیادت پاکستان کے ایک اور عظیم بلے باز اسد شفیق کر رہے ہیں جب کہ سرفراز احمد ان کی زیر قیادت کھیلتے دیکھائی دے رہے ہیں، کرکٹ سے والحانہ لگاؤ سرفراز کو وکٹ کے پیچھے خاموش رہنے ہی نہیں دیتا ۔ جہاں تک دیکھائی دیتا ہے سرفراز احمد ایک کھلاڑی ہے اور انہیں اس بات سے قطعی کوئی فرق نہیں پڑنے والا کہ قیاد ت کرے یا کہ بطور وکٹ کیپر یا بلے باز کھیلے ، وہ جیت کے لیے لڑنے والا اور اپنے ساتھیوں کو لڑانے والا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ تبدیلی کی یہ ہوا قومی ٹی ٹوئنٹی میں خیبر پختونخوا کی قیادت کرنے والے محمد رضوان کی جگہ خالی کروائے گی اور تاریخ میں سرفراز احمد پاکستان کو انگلینڈ کی سرزمین پر چیمپیئن ٹرافی جتوانے والے کپتان بنے گے ۔ اب تو یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ آسٹریلیا کے لیے جو ٹیم سامنے آنے والی ہے کیا سرفراز اس میں جگہ بنا سکیں گے ؟
ارباب اختیار سے سوال ہے کہ قومی ٹی ٹوئنٹی جیسے مقابلے ایک ہی شہر تک محدود رکھنے کی کیا وجوہات ہیں ، چلیں ماضی میں تو حفاظتی اقدامات کی وجہ ہوسکتی تھیں لیکن اب جب کہ ایک باقاعدہ بین الاقوامی ٹیم پاکستان کا رسمی دورہ کرکے جا چکی ہے پھر بھی ملک کا اتنا بڑا ٹورنامنٹ ایک ہی شہر تک کیوں محدود ہے۔ کیا پاکستان کرکٹ بورڈ کا میڈیا ونگ کام نہیں کرتا؟ اتنے بڑے ٹورنامنٹ کی کوئی خاص کوریج کہیں دیکھائی نہیں دے رہی۔جب کہ سارے نامور ستارے اس ٹورنامنٹ کا حصہ بنے ہوئے ہیں ، پھر یہ مقابلے تمام صوبوں میں نا صحیح کم از کم پنجاب کے مختلف شہروں میں تو منعقد کیے جاسکتے ہیں۔ کیا ہم اس کو پاکستان کرکٹ بورڈ کی سستی سمجھیں یا پھر ہمارے ذرائع اتنے محدود ہیں کہ ہم فیصل آباد سے گوجرانوالہ، لاہور سے رالپنڈی سفر نہیں کرسکتے ۔ ہم اس طرح سے دنیا کو کیا پیغام دیتے ہیں کہ ہم اپنے ملک میں ہونے والے مقابلوں کو بھی ایک ہی شہر تک محدود رکھتے ہیں، نا چاہتے ہوئے بھی یہاں پڑوسی ملک میں نامی گرامی لیگ کی مثال دینی پڑ رہی ہے جو قریباً پورے ملک میں پھیلی ہوتی یعنی کھیلی جاتی ہے اسی طرح ہر ملک ، جہاں اس طرح کی لیگ ہو رہی ہیں پورے ملک میں منعقد کی جاتی ہیں۔ نہیں معلوم کہ وہ کون سی وجوہات ہوں گی جن کی وجہ سے پاکستان کرکٹ بورڈ ایسے مقابلے ایک ہی شہر تک محدود رکھتا ہے ۔ جہاں تک دیکھا جائے تو اگر ان مقابلوں کو زیادہ سے زیادہ شہروں میں منعقد کیا جائے گا تو لوگوں میں اپنے قومی ستاروں کو براہ راست دیکھنے کا موقع ملے گا جس سے پاکستان کرکٹ بورڈ ٹکٹ کی صور ت میں ریوینو بنائے گا جو کرکٹ کی بہتری کے لیے استعمال کیا جائے گا، اس طرح نا صرف کرکٹ کو فروغ ملے گا بلکہ سال ہا سال سے بند اسٹیڈیم بھی آباد ہونا شروع ہوجائیں گے۔ دنیا کو بھی پتہ چلے گا کہ پاکستان میں کرکٹ کی سہولیات کیسی ہیں ، پاکستان کے کن کن شہروں میں اسٹیڈیم ہے اور کون سا شہر کون سے کھلاڑی کا ہے اور اس طرح کی بہت ساری فائدہ مند باتیں سامنے آسکتی ہیں ، دیگر شہروں میں کرکٹ کی فروغ کے لیے کام کرنے والے لوگ سامنے آئیں گے۔ حالات کو جب تک ہم خود آسان نہیں کریں گے تو سامنے والے کو کیسے پتہ چلے گا کہ سب اچھا ہوچکا ہے ۔