آج مسجد میں معمول سے زیادہ رش دیکھنے کو ملا، حیرانی تو ہوئی تھی مگر دل میں خوشی بھی محسوس ہوئی۔ نماز کے بعد منیر میرے پاس آیا اور بولا، ’’بھائی کل رزلٹ ہے دعا کر دیجیے گا‘‘۔اب مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ آج مسجد میں نوجوان کیوں زیادہ ہیں ۔ رزلٹ والے دن مجھے منیر اور اس کے کچھ دوست ملے ، میں نے رزلٹ کے بارے میں دریافت کیا تو منیر کا چہرہ لٹکا ہوا پایا ،باقی دوستوں میں بھی چند خوش تھے اور کچھ اداس۔ یعنی جس کا نتیجہ بہتر آیا وہ خوش تھا اور جس کا بہتر نہیں آیا وہ مایوس اور پریشان تھا۔ اب مجھے موقع ملا اور میں نے سب کو چائے پر مدعو کیا اور کہا کہ اپنے باقی دوستوں کو بھی ساتھ لیتے آئیں ۔
مغرب کی نماز کے بعد منیر اور اس کے باقی دوست گھر آئے ،میں نے انہیں مہمان خانے میں بٹھایا اور سب کے لیے چائے تیار کروائی ، چائے کے ساتھ کچھ ہلکا پھلکا ناشتہ بھی رکھ لیا تاکہ گفتگو کے دوران بوریت یا سستی پیدا نہ ہو ۔ پہلے سب سے تعارف لیا اور پھر اپنا مختصر تعارف کروایا بعد ازاں ان کے نتیجہ کے بارے میں معلومات لیں ۔ کچھ لڑکے اچھے نمبروں سے پاس ہوئے تھے کچھ اوسط نمبروں سے اور کچھ بہت کم نمبروں سے جب کہ کچھ پاس ہی نہیں ہوئے تھے۔
اب سب کا دھیان اپنی طرف پاکر میں ان سے مخاطب ہوا، ’’دیکھیں آپ سب میرے بھائی ہیں اور مجھے اندازہ ہے کہ امتحانات میں کامیابی کے لیے آپ سب نے محنت بھی کی تھی مگر کسی نے زیادہ اور کسی نے کم ، جس نے جتنی محنت کی اس کا ویسا ہی نتیجہ آیا ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ میں سے کسی نے زیادہ محنت کی ہو مگر اس کے باوجود اس کے نمبر کم آئے ہوں۔ ہم سب انسان ہیں، غلطی کوتاہی سب سے ہو جاتی ہے، کہیں چیک کرنے والوں سے بھی غلطی ہوگئی ہوگی مگر یہ بات درست ہے کہ امتحانات میں کامیاب ہونے کے لیے محنت سب نے کی تھی کیوں کہ محنت کے بغیر یہ ممکن نہ تھا کہ آپ لوگ امتحانات میں کامیاب ہو پاتے۔ کیا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں؟‘‘ میں نے سب کو ہوشیار کرنے کے لیے ان سے سوال کیا تاکہ کسی کو بوریت ہو نہ ہی سستی محسوس ہو۔ ’’
جی آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں،،، سب نے یک زبان ہو کر کہا ۔ ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ یہ دنیاوی کامیابی ہے ، عارضی کامیابی ۔ اس کا تعلق فقط ہماری چھوٹی سی دنیاوی زندگی سے ہے۔ کیا اس بات سے بھی سب واقف ہیں ؟‘‘
جی بھائی ہم سب واقف ہیں ۔ ’’ جی بالکل ہم سب واقف بھی ہیں اور اس بات کو بہتر طریقے سے جانتے بھی ہیں ، مگر اندازہ کریں ہم اس دنیاوی کامیابی اور دنیاوی امتحانات کے لیے کتنی محنت کرتے ہیں جو کہ عارضی کامیابی ہے ،مگر ہم حقیقی کامیابی کے لیے محنت نہیں کرتے جس کامیابی سے ہماری ہر چیز جڑی ہوئی ہے۔ آپ میں سے وہ لوگ جن کے امتحانات میں اچھے نمبر آئے ہیں وہ خوش ہیں اور وہ لوگ پریشان اور مایوس ہیں جن کے نمبر یا تو کم آئے ہیں یا پھر وہ جو امتحانات میں کامیاب ہی نہیں ہو پائے ، مگر جو لوگ کامیاب نہیں ہو پائے وہ جانتے ہیں کہ ان کے پاس اب بھی موقع ہے۔ وہ دوبارہ محنت کر کے امتحان میں پاس ہو سکتے ہیں اور جن کے نمبر کم ہیں وہ بھی دوبارہ محنت کریں تو اچھے نمبروں حاصل کر سکتے ہیں۔
لیکن جو نتیجہ ہمارے آخری امتحان میں آنا ہے اس میں دوسرا موقع نہیں ملے گا۔ آج ہم نے اس کامیابی کے لیے جو محنت کی اس کا پورا پورا بدلہ ملنا ہے۔ جس طرح آج امتحانات میں کامیاب ہونے والے لڑکے خوش ہیں بالکل اسی طرح اس دن حقیقی کامیابی پانے والے بھی انتہائی خوش ہوں گے اور ان کی خوشی کی انتہا نہ ہوگی۔ جس طرح آج امتحانات میں ناکام ہونے والے پریشان اور مایوس ہیں بالکل اسی طرح اس دن اپنے اس حقیقی امتحان میں نا کام ہونے والے لوگ بھی انتہائی پریشان ، مایوس اور غم سے نڈھال ہوں گے ، اس دن کی ہولناکی انہیں بہت تڑپائے گی۔ ان لوگوں کو دوبارہ موقع بھی نہیں ملے گا کہ وہ دوبارہ دنیا میں بھیجے جائیں اور دوبارہ تیاری کر کے رب کے حضور پیش ہوں۔
قرآن پاک میں اللہ پاک ایسے لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ، کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے (اس وقت یہ کہہ رہے ہوں گے) اے ہمارے رب، ہم نے خوب دیکھ لیا اور سن لیا اب ہمیں واپس بھیج دے تا کہ ہم نیک عمل کریں، ہمیں اب یقین آگیا ہے۔ (السجدۃ)
پھر جب انہیں دوزخ کے کنارے کھڑا کیا جائے گا تو بقول قرآن پاک وہ کہیں گے، کاش تم اس وقت کی حالت دیکھ سکتے جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کیے جائیں گے۔ اس وقت وہ کہیں گے کہ کاش کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دنیا میں پھر واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں۔ (الانعام)
اسی طرح ارشاد باری تعالی ہے کہ ” پھر جب انہیں جہنم میں پھینک دیا جائے گا ان کے اعمال کے بدلے میں، تب وہ پکاریں گے، وہ وہاں چیخ چیخ کر کہیں گے کہ اے ہمارے رب، ہمیں یہاں سے نکال لے تا کہ ہم نیک عمل کریں ان اعمال سے مختلف جو پہلے کرتے رہے تھے۔ (انہیں جواب دیا جائے گا) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس میں کوئی سبق لینا چاہتا تو سبق لے سکتا تھا اور تمہارے پاس متنبہ کرنے والا بھی آ چکا تھا۔ اب مزا چکھو۔ ظالموں کا یہاں کوئی مدد گار نہیں ہے‘‘۔ (فاطر)
میں نے دیکھا کہ تمام لڑکے بڑی انہماک اور دھیان سے میری بات سن رہے تھے اور سب کے چہروں پر پریشانی اور ندامت کے آثار نمایاں تھے۔ میں نے سب کو دوبارہ مخاطب کیا اور کہا، ’’میرے بھائیوں دنیاوی محنت بالکل ضروری ہے تاکہ آپ لوگ زندگی میں باعلم لوگوں میں گردانے جائیں، آپ سب کو دنیا میں ترقی کرنا ہے مگر اس سب سے کہیں زیادہ آخرت کی کامیابی کے لیے محنت ضروری ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ میرے پاس جو وقت نکال کر آئے ہیں اس کا آپ کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوگا۔ اس لیے آج سے اپنی آخرت کی تیاری کے لیے بھی محنت شروع کریں، آخرت کی کامیابی کے لیے وہ تمام عوامل ضروری ہیں جو بطور مسلمان ہم پر فرض ہیں۔ خود بھی نیکی کرنی ہے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرنی ہے ۔ جہاں ضرورت ہو حق کے گواہ بن کر کھڑے ہونا ہے وہ حق جو اللہ تعالی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم تک پہنچا ہے تب ہی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے‘‘۔
بات کے اختتام پر میں نے سب سے وعدہ لیا کہ وہ اپنی محنت جاری رکھیں گے اور دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی حقیقی کامیابی کے لیے بھی محنت کریں گے اور آخرت کو اپنی ترجیح اول میں رکھیں گے ،اس کے بعد منیر اور اس کے سب ساتھی رخصت ہوگئے ، مجھے بہت خوشی ہوئی کہ نوجوان میری بات اچھے سے سمجھ گئے کیوں کہ انہیں کامیابی کی تلاش تھی مگر شاید ابھی تک کسی نے حقیقی کامیابی کے بارے میں صحیح سے بتایا یا سمجھایا نہیں تھا مگر یہ کامیابی کے متلاشی تھے۔