تم کون ہو جو ہماری مدد کررہے ہو؟؟ تم عرب ہو؟؟۔
ایک قید خانے کی طرح کی حویلی میں محصور شامی خاندانوں نے جب اچانک مسلمان فوجیوں کو اپنی مدد کو آتے دیکھا تو بے اختیار ان میں سے ایک خاتون خوشی کے آنسو لیے پوچھ بیٹھی۔
نہیں ہم ترک ہیں ۔ ترکی فوجی کا جواب سن کر وہ خاتون حیران و ششدر رہ گئی ۔
یہ دیکھتے ہی میری لا متناہی سوچوں کا آغاز ہوچکا تھا۔
عربوں کی طرف ہم کیوں امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ہر مشکل میں مدد کو آن پہنچیں گے۔کیوں؟؟
اس لیے نا کہ اسلام کی بنیاد ہی عرب ہیں ۔ اسلام کی پہچان عربوں سے رہی ہے۔ہم تک اسلام کا پہنچنا بھی ان ہی کے مرہونِ منت ہے۔
ہاں بالکل یہ بات تو ٹھیک ہے لیکن اب یہ عرب وہ نہیں رہے کہ جو بارہ بارہ پیوند لگے سادہ کپڑے پہنے 22 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرتے تھے۔اور جو اپنے غلام کو گھوڑے پر سوار کیے خود مہار تھامے بڑی شانِ بے نیازی سے چلا کرتے تھے اور جن کو کفن کا پورا کپڑا میسر نہیں ہوا کرتا تھا لیکن پوری دنیا ان کی ہیبت سے خوف کھاتی تھی۔
نہیں نہیں بالکل نہیں اب تو بڑی تبدیلی آئی ہے۔اب تو عربوں کے لیے سب کچھ پیسہ ہے پیسہ۔
اچھا ٹھیک ہے مان لیا کہ عربوں نے اپنے ایمان کا سودا کرلیا ہے لیکن یہ ترک کون ہیں جو “مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے ” کا نعرہ لگا رہے ہیں۔
ارے ہاں یہ تو وہی ترک ہیں نا کہ جن کے ملک ترکی میں اسلام کا نام لینا بھی گناہ تھا۔حفظِ قرآن کرنا ایک بہت بڑا جرم تھا۔یہ تبدیلی اچانک کیسے آئی؟؟
کیا کہا رجب طیب اردگان نے یہ تبدیلی لائی؟؟
ہاں بالکل فرزندِ ارتغل رجب طیب اردگان نے اک نئی صبح کی نوید سنائی۔وہ اب تو غازی ارتغل کی طرح بکھرے ہوئے مسلمانوں کو اکھٹا کرنے کی ٹھان چکا ہے۔ دوبارہ نئے سرے سے سلطنتِ عثمانیہ کا قیام اس کا منصوبہ ہے۔
ہاں ایک اور بات بتاؤں کہ ترکی مکمل تباہی کے بعد دوبارہ کیسے جی اٹھا ہے۔
کیونکہ انھوں نے دنیا پر حکمرانی کرنے کا فارمولہ اپنا لیا ہے۔وہ قرآن کی اس آیت میں بتائے گئے فارمولے تفسیر بن گئے کہ
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اگر تم اللہ کے (دین کی) مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا ۔”
تب ہی تو ایک امید جاگ اٹھی ہے۔یہی امید کہ اللہ تعالیٰ رجب طیب اردگان کے ذریعے ظلمات کے سینوں کو چیر کر ایک نئی سحر پیدا کرے گا۔
وہ نئی صبح بہت روشن اور چکمدار ہوگی۔
یقیناٙٙ یقیناٙٙ