اس قضیے کو سمجھنے کی ابتدا ترکی کے شام پر حالیہ حملے سے کی جائے تو گتھی سلجھنے کے بجائے مزید الجھے گی ۔ اس لیے ہم اس معاملے کو بنیاد سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
کردستان
ترکی کا جنوب مشرقی علاقہ
ایران کا شمال مغربی علاقہ
عراق کا شمالی علاقہ
اور شام کا شمال مشرقی علاقہ
یہ کردوں کا مسکن ہے ۔ اسے کردستان کہا جاتا ہے ۔ یہ سارا خطہ تین لاکھ بانوے ہزار مربع کلومیٹر پر محیط ہے ۔ کردستان کے اس منقسم خطے میں سے ترکی کے پاس ایک لاکھ نوے ہزار، ایران کے پاس ایک لاکھ پچیس ہزار، عراق کے پاس 65 ہزار اور شام کے پاس بارہ ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ ہے ۔
کرد قوم اس خطے میں تین سو سال قبل مسیح سے آباد ہیں ۔ساتویں صدی میں یہ مسلمان ہوئے ۔ اس وقت نوے فیصد سے زائد کرد سنی مسلمان ہیں ۔ حالیہ وقتوں میں ان کی کل آبادی ساڑھے تین کروڑ کے لگ بھگ ہے ۔ سب سے زیادہ تعداد ترکی میں آباد ہے ۔ یہ تعداد تقریبا ًڈیڑھ سے پونے دو کروڑ کے آس پاس ہے ۔ ایران میں قریب قریب نوے لاکھ ، عراق میں اسی لاکھ اور شام میں تیس لاکھ کے عدد کو چھوتے ہیں ۔
جنگ عظیم اول سے قبل یہ سارا خطہ خلافت عثمانیہ کے زیر نگیں تھا ۔ جنگ خلافت عثمانیہ کی شکست پر منتج ہوئی ۔ شکست کا سب سے نمایاں نتیجہ یہ سامنے آیا کہ چھوٹی چھوٹی قومی سلطنتیں تشکیل پاگئیں ۔ یہ صورتحال مسلمانوں کے حریفوں کے لیے بےحد حوصلہ افزا تھی ۔ یہیں سے مسلمانوں کا حقیقی زوال شروع ہوا ۔
معاہدہ سیورے
۔10اگست 1920 کو اتحادیوں اور سلطنت عثمانیہ کے مابین ایک معاہدہ طے پایا، جو ” معاہدہ سیورے ” کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اس معاہدے کے رو سے حجاز مقدس ترکی سے الگ ہوا۔ نیز یہ بھی طے پایا کہ کردوں کی الگ ریاست بنے گی ۔
معاہدہ لوزان
مصطفی کمال اتاترک نے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔ خلافت کی بساط لپیٹی اور ترکی کی آزادی کا اعلان کر دیا ۔ اس دوران ترکی میں یونانی فوج بڑی تیزی سے پیش قدمی کر رہی تھی ۔ کمال اتاترک نے 1921 کو روس سے دوستی کا معاہدہ کرلیا ۔ اس عمل سے تقویت پاکر 1922 کو یونانی افواج کو شکست سے دوچار کیا اور انہیں ترکی سے نکال باہر کیا ۔ کمال اتاترک کی اس شاندار فتح کی وجہ سے جنگ عظیم کے اتحادی مذاکرات کی میز پہ آنے پر مجبور ہوگئے اور 24 جولائی 1923 کو سوئیٹزرلینڈ کے شہر لوزان میں ” معاہدہ لوزان ” عمل میں آیا ۔ اس معاہدے کی رو سے سابقہ معاہدہ ” معاہدہ سیورے ” کو منسوخ قرار دیا گیا ۔ جس کی رو سے ایک آزاد کرد ریاست نے جنم لینا تھا ۔ معاہدہ لوزان کی اہمیت یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں ترکی ،شام اور عراق کی سرحدیں متعین کر دی گئیں ۔ دوسرے لفظوں میں کردوں کے ارمانوں پر نہ صرف پانی پھیر دیا گیا، بلکہ انہیں عملاً ترکی ،شام ،عراق اور ایران کے مابین منقسم تسلیم کیا گیا ۔
ایران میں کردوں کی بغاوت
ایران میں کردوں کے پاس آذربائیجان اور ہمدان وغیرہ کا علاقہ ہے ۔ یہاں ان کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ 17ویں صدی میں شاہ عباس نے شروع کیا اور انہیں جبرا ًایران کے ایک اور علاقے خراسان کی طرف دھکیل دیا ۔ جنگ عظیم دوم کے بعد 1946 میں قاضی محمد کی قیادت میں بغاوت ہوئی ۔ جس کے نتیجے میں ” مہا آباد جمہوریہ ” کے نام سے کرد ریاست وجود میں آئی ۔ یہ ریاست محض ایک سال ہی اپنا وجود برقرار رکھ پائی ۔ قاضی محمد کو پھانسی دے دی گئی ۔ کردوں کی زبان پر بھی پابندی عائد کی گئی ۔انقلاب کے بعد خمینی صاحب نے کردوں کے خلاف فوج کشی کی اور انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ۔
عراق میں کردوں کی بغاوت
عراق میں کردوں کے پاس شمالی علاقہ ہے ،جہاں معروف شہر اربیل، کرکوک اور موصل واقع ہیں ۔ یہاں انہوں نے 1960 میں مصطفی بارزانی کی قیادت میں بغاوت کی جو 1975 تک جاری رہی ۔ اس بغاوت کے نتیجے میں انہیں خودمختاری حاصل ہوئی ۔ 1991 میں صدام نے اس علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیا ۔ صدام کی حکومت کے خاتمے کے بعد نئے آئین کے تحت انہیں ایک بار پھر خودمختاری مل گئی ۔ کچھ عرصہ قبل کردوں نے آزاد ریاست کے لیے اپنے علاقوں میں ریفرنڈم کروایا ۔ جسے عراق نے یک قلم مسترد کردیا اور فوجی آپریشن کیا ۔
ترکی کا کردستان
ترکی میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد کردوں نے 1925 میں شیخ سعید کے زیرکمان بغاوت برپا کی۔ ترکی نے اس بغاوت کو کچلنے کے بعد ان کی زبان اور ثقافت ختم کر کے انہیں پہاڑی ترک قرار دے دیا ۔ اس عمل کا مقصد کردوں کو ترک معاشرے میں مکمل طور پر ضم کرنا تھا ۔ 1978 میں بغاوت نے پھر سر اٹھایا ۔ آزادی کی اس تحریک میں کردستان ورکرز پارٹی( پی کے کے ) پیش پیش تھی ۔ ترک سرکار اور کردوں کے مابین مسلح جنگ چھڑ گئی ۔ جس نے ترکی کی معیشت کے کس بل نکال دیئے ۔ اس جنگ میں ترکی کو قریب قریب 450 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ۔ گورنمنٹ نے پی کے کے کو کالعدم قرار دے دیا۔ تحریک کے قائد عبداللہ اوجلان گرفتار ہوئے ۔ جنہوں نے بالآخر 2015 میں تحریک ختم کرنے کا اعلان کر دیا ۔ طیب اردگان نے ترک کردوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے انتھک کوششیں کیں ۔ جس کا ثمر یہ ہے کہ اس وقت ترکی میں دوسری بڑی سیاسی پارٹی کردوں کی ہے ۔
شام کا کردستان
شام کی حالیہ جنگ میں بہت سی طاقتوں کی طرح کردوں نے بھی خوب خوب فوائد سمیٹے ۔ انہوں نے عقلمندی یہ کی کہ شامی افواج سمیٹ دیگر طاقتوں سے الجھنے کے بجائے کرد پٹی پہ اپنی گرفت مضبوط کرنے کی ٹھانی ۔ اس مقصد کے لئے ” وائی پی جی ” نام کی ایک تنظیم تشکیل دے دی گئی ۔ اس گروہ نے شام کے شمال مغرب میں ترک سرحد کے قریب واقع قصبے ” عفرین ” کو اپنے مرکز کے طور پر چنا۔
۔ 2013 کے آخر میں داعش نے سر اٹھایا ۔ 2014 کو اس نے شمالی شام کے شہر رقہ پہ قبضہ کر لیا ۔ یہی وہ شہر تھا جسے داعش نے اپنے دارالحکومت کے لئے منتخب کیا ۔ رقہ سے شمال کی جانب کرد پٹی پڑتی تھی ۔ یہاں سے نئے کھیل کا آغاز ہوا۔
داعش سے نمٹنے لے لئے ایک اتحاد تشکیل دیا گیا اور اسے سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کا نام دیا گیا ۔ ایس ڈی ایف میں عرب جنگجو بھی تھے ، مگر بالادستی وائی پی جی کو حاصل تھی ۔ ایس ڈی ایف کو جدید ترین اسلحہ فرانس، برطانیہ اور امریکا نے دیا ۔ اسلحے کی رقم سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جیب سے ادا ہوئی ۔ یوں یہ گروہ شام کا سب سے مضبوط اور طاقت ور گروہ بن کر ابھرا ۔ داعش نے ترک سرحد پہ واقع کرد شہر کوبانی پہ حملہ کیا ۔ اس محاذ پہ اسے کردوں نے ناکوں چنے چبوا دیئے ۔ اس جنگ میں کرد خواتین نے بھی بھرپور داد شجاعت دی ۔ چار ماہ کی طویل لڑائی کے بعد داعش ناکام لوٹی ۔ اس کے بعد اتحادیوں نے داعش کے مرکز رقہ پہ حملے کی ٹھانی ۔ فضائی حملے تو امریکا اور اس کے حواریوں نے اپنے ذمے لے لئے مگر داعش کے گڑھ پر زمینی حملے کی تاب کسی میں نہ تھی ۔ یہ کام ایس ڈی ایف کے سپرد کر دیا گیا ۔ ایس ڈی ایف نے پانچ ماہ کی خونریز جنگ کے بعد رقہ سے داعش کا صفایا کردیا ۔ شام میں دولت اسلامیہ کے خاتمے میں سیرین ڈیموکریٹک فورسز کا کلیدی کردار رہا ۔
داعش سے پنجہ آزمائی کا ایس ڈی ایف ( جیساکہ واضح کیا گیا ہے کہ اس اتحاد کی اہم ترین شاخ کردوں کی وائی پی جی ہے ) کو بےحد فائدہ ہوا ۔ حوصلے بڑھ گئے ۔ دنیا سے اپنی حربی افادیت منوائی ۔ جدید ترین اسلحہ ہاتھ آیا ۔ شامی کردستان پکے ہوئے پھل کی طرح گود میں آ گرا ۔
ترکی کی بےچینی
اب صورت حال یہ تھی کہ ترکی کے جنوبی سرحدی علاقے میں کرد بستے ہیں ۔ ترکی کی جنوب مشرقی سرحد عراقی کردستان جبکہ جنوبی سرحد کا وسطی اور جنوب مغربی حصہ شامی کردستان سے ملتا ہے ۔ عراق میں کرد نیم خودمختار ہیں ۔ شام میں اس قدر طاقت حاصل کر چکے ہیں کہ ان کے خطے سے بشار سرکار کی رٹ ختم ہوکر رہ گئی ہے ۔
ترکی نے 2015 میں بڑی مشکلوں سے کرد بغاوت کا خاتمہ کیا۔ ترک کرد دہشت گرد تنظیم “پی کےکے” کے کچھ افراد مار دیئے گئے، کچھ پابند سلاسل کر دیئے گئے۔ باقی ماندہ لوگ زیرزمین چلے گئے ۔ شام میں وائی پی جی کے سامنے آنے کے بعد پی کےکے نے درون خانہ اس سے تعلقات استوار کر لئے اور ہر طرح سے اس کی مدد کی ۔ ترکی بخوبی جانتا تھا کہ اب کے بار ترک کردستان میں بغاوت ہوئی تو اسے دبانا ہرگز آسان نہ ہوگا ۔ اس بغاوت میں شام اور عراق کے کرد بھی کود پڑیں گے ۔ یہ جنگ ترکی کی نیا تباہی کے گرداب میں یوں ڈبوئے گی کہ تنکا بھی نہ بچے گا ۔
ترکی کی چال
ترکی نے اس معاملے کا یہ حل نکالا کہ ترک کردستان کو عراقی اور شامی کردستان سے کاٹ کر یکسر الگ کردے ۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ترک کردوں کا شامی اور عراقی کردوں سے روابط کٹ جائیں گے یا کم از کم محدودہو جائیں گے ۔ جس کے نتیجے میں گریٹر کردستان کے خواب اور تعبیر کے بیچ دیوار کھڑی ہوجائے گی ۔
حالیہ صوت حال یہ ہے کہ ترکی کے جنوب مغرب میں واقع شامی خطہ ان قوتوں کے پاس ہے جو ترکی کی حلیف ہیں ۔ البتہ سرحد کا وسط اور جنوب مشرقی حصہ کردوں ( ایس ڈی ایف ) کے پاس ہے۔
اس وقت ترکی میں لگ بھگ 35 لاکھ شامی پناہ گزین موجود ہیں ۔ ترکی نے ترک کردوں کو شامی اور عراقی کردوں سے دور کرنے کا منصوبہ کچھ یوں ترتیب دیا ہے کہ اپنے حلیف گروہوں کی مدد سے ایس ڈی ایف کو شامی سرحدی خطے سے وسطی شام کی طرف دھکیل کر تقریبا 32 کلومیٹر کا علاقہ قبضا لیا جائے ۔ اس خطے میں ترکی میں موجود شامی پناہ گزینوں کو آباد کیا جائے ۔ اس عمل کا دو رخی فائدہ ہوگا ۔ ترک اور شامی و عراقی کردوں میں جغرافیائی کٹاو اور دوری واقع ہوگی ۔ اس کے ساتھ ساتھ شامی مہاجرین کا بوجھ بھی سر سے اتر جائے گا ۔
ترکی کے ترپ کے پتے
شام کی جنگ میں ترکی بشار الاسد کی مقابل صفوں میں کھڑا تھا ۔ اس نے دمشقی افواج کے خلاف لڑنے والے بہت سے گروہوں کی ہر طرح سے مدد کی ۔ 2016 میں جب اس نے شام میں کردوں کے خلاف آپریشن کیا تو اس سے پہلے ان تمام جنگجو گروہوں کو ایک کمانڈر کے نیچے جمع کیا گیا۔ اس اتحاد کو سیریئن نیشنل آرمی کہہ دیا گیا۔ مقصد رابطوں میں آسانی اور گروہی اختلاف و تصادم سے بچنا تھا ۔ ترکی نے 2018 میں بھی شامی کرد علاقے “عفرین ” میں فوجی کارروائی کی ۔ آپریشن سے قبل مزید کچھ گروہوں کو سیریئن نیشنل آرمی کا حصہ بنایا گیا ۔ اس وقت شام کے شمال مغربی شہر ادلب میں ترکی کی حامی تنظیم تھی ۔ جس کا نام نیشنل لبریشن فرنٹ تھا ۔ بعد میں سیریئن نیشنل آرمی اور نیشنل لبریشن فرنٹ کو یکجا کر کے نیشنل آرمی کا نام دے دیا گیا ۔ اس اتحاد میں چھوٹی بڑی تقریبا 30 تنظیمیں شامل ہیں ۔ اتحاد کی سربراہی جنرل سلیم ادریس کے پاس ہے، جو اس سے قبل فری سیریئن آرمی کے سربراہ تھے۔ ترک سرکاری ٹی وی کے مطابق اس وقت نیشنل آرمی کے پاس 60 ہزار جنگجو ہیں ۔ حالیہ دنوں ان میں سے 14 ہزار کے لگ بھگ نفری کو ان علاقوں میں پہنچا دیا گیا ہے جہاں ترک اور شامی کردوں کے مابین جھڑپیں ہورہی ہیں ۔ کردوں کے لیے اصل درد سر نیشنل آرمی ہے ۔ یہ تنظیم شام کے علاقوں سے بخوبی واقف ہونے کے ساتھ ساتھ کردوں کے جنگی طریق کار کو بھی اچھی طرح جانتی ہے ۔ ادلب میں موجود ایک اور گروہ جیش الاسلام بھی ترکی کے شانہ بشانہ کھڑا ہے ۔
کہانی میں نیا موڑ
گزشتہ دنوں جب ترکی نے شامی علاقے میں قدم رکھے تو اسے کسی خاص دشواری کا سامنا نہیں تھا ۔ گیم کے نتائج تک سونگھ لینے کے بعد امریکا شامی کردستان سے اپنی رہی سہی افواج نکال چکا تھا ۔ روس کو بھی اعتماد میں لے لیا گیا تھا ۔ نیشنل آرمی بھی ہم قدم تھی ۔ اچانک صورت حال بدلتی محسوس ہوئی ۔ کردوں ( سیریئن ڈیموکریٹک فورسز ) نے دمشق کو مدد کے لیے پکارا ۔ مدد کے عوض شمالی شام سرکاری فورسز کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا۔ پیشکش اس قدر شاندار تھی کہ بشاری افواج کی رال ٹپک پڑی ۔ انہوں نے شمال کے اس حصے کی طرف پیش قدمی شروع کر دی جہاں ایس ڈی ایف اور ترک باہم گتھم گتھا ہیں ۔
بات یہیں تک رہے تو ٹھیک ۔ ترکی معاملات سنبھال لے گا ، مگر تشویش کی بات یہ ہےکہ روس اور ایران شروع سے ہی بشار الاسد کے حلیف ہیں ۔ ترکی عالمی سطح پر بھی بےپناہ دباو کا سامنا کر رہا ہے ۔ بہرکیف آئندہ کے چند دنوں میں واضح ہوگا کہ یہ جنگ کیا رخ اختیار کرتی ہے ۔
شام ترکی تنازعات
ترکی اور شام کے مابین سردمہری بہت پرانی ہے ۔ ترکی کے جنوب مغرب میں واقع ترک صوبے “ہاتے” پر شام اپنا حق جتاتا ہے ۔ اس کے خیال میں لوزان معاہدے میں عالمی قوتوں نے اس کا حصہ کاٹ کر ترکی کی جھولی میں پھینک دیا تھا ۔ اس کے علاوہ دجلہ اور فرات کے پانیوں کی تقسیم کا معاملہ بھی تنازع کا باعث بنارہا ۔ اسی وجہ سے سرد جنگ کے زمانے میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے مخالف کیمپوں میں تھے ۔ 1988 کو دونوں ممالک کے مابین معاملات کی درستی اور تنازعات کے تصفیے کے لیے ایک معاہدہ طے پایا تھا ۔ جس کے بعد حالات نسبتا ًبہتر تھے کہ یکایک عرب بہار نے شام کا رخ کر لیا اور اس کے ساتھ ہی سارا منظر نامہ ہی تبدیل ہوگیا ۔
عمدہ تجزیہ