بریسٹ کینسر کو چھاتی کا سرطان بھی کہتے ہیں یہ خواتین کا قدیم تربور(دشمن) ہے ماہرین کے مطابق ہر سال نوے ہزار خواتین اس بیماری کا شکار ہورہی ہیں مگر صرف دس فیصد خواتین میں بیماری کی تشخیص ہوتی ہے
75فیصدعلاج نہیں کرواتیں اور پانچ سال کے اندر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں
چھاتی کا سرطان ایشیا میں سب سے زیادہ ہے اور اگر خیبرپختونخوا کی بات کی جائے تو باقی صوبوں کی نسبت کینسر کی شرح یہاں سب سے زیادہ ہے
ہمارے سماجی المیوں میں سے ایک المیہ قدامت پسندی بھی ہے اس کے بارے میں ہمارے معاشرے میں انتہا درجے کی پسماندگی پائی جاتی ہے ایک طرف تشخیص وعلاج کی سہولیات ناکافی ہیں تو دوسری جانب خواتین کی جھجھک، شرم و حیا اس بیماری سے متعلق لب کشائی کو مشکل بنا دیتی ہے اور انھیں لگتا ہے کہ اس پر بات کرنے سے خدانخواستہ وہ بے پردگی کی مرتکب ہو رہی ہیں
خیبرپختونخوا میں خواتین کا زیادہ تر تعلق دوردراز کے قصبوں دیہاتوں سے ہوتا ہے جہاں پر پردہ، بے پردگی… حیا کے ساتھ مشروط سمجھی جاتی ہے، چاہے موت کے سامنے ایڑیاں رگڑتے جان نکلے مگر حیا کو آنچ نہ آئے، رحم کا کینسر ہو یا بریسٹ کا کینسر، حساس جگہ کا کینسر سمجھا جاتا ہے اور خواتین کے لیے اس پر بات کرنا مشکل مرحلہ بلکہ چیلنج ہے
ہمارے ہاں اگر خواتین پڑھی لکھی بھی ہے تو بھی اپنے جسم کے پوشیدہ گوشوں سے متعلق بات کرنا اس کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے
پاکستان میں بریسٹ کینسر سرجن فی میل ڈاکٹر کی کمی ہے خواتین اس شعبے میں کم ہی آتی ہیں یہی وجہ ہے کہ میل ڈاکٹر سے علاج کروانے کی ہمت پیدا کرنے میں اتنا وقت نکل جاتا ہے کہ بیماری پہلی اسٹیج سے نکل جاتی ہے… اور بڑھتی اسٹیج میں بیماری کو ہینڈل کرنا اتنا ہی دقت اور وقت طلب ہوتا ہے
ہمارے ہاں صحت سے متعلق خواتین میں تعلیم کی بھی کمی ہے فوراً ڈاکٹر کے پاس جانے کا رواج کم ہی ہے… جسم میں تکلیف ہو تو عموماً خود ہی میڈیکیشن کر کے اپنے تئیں معرکہ سمجھ لیا جاتا ہے ، تھوڑا آرام آگیا تو مطمئن ہو جاتے ہیں…. اگر دوبارہ تکلیف ہو تو زہن میں نظر لگنے سے لے کر جادو ٹونے تک سوچ کے گھوڑے ضرور دوڑائیں گے مگر بروقت تشخیص کی طرف دھیان نہیں دیں گے
چونکہ اس بیماری میں چھاتی میں گلٹی محسوس ہوتی ہے اور درد خاص نہیں ہوتا… مریض روٹین کے کام بغیر رکاوٹ کے آسانی سے کرتا ہے لہذا بہتر یہی سمجھا جاتا ہے کہ پہلے دم درود کروالیا جائے…. آرام. نہ آنے کی صورت میں پھر حکیم، گلی محلے میں کھلے عطائی ڈاکٹر سے مکمل فیضیاب ہونے کے بعد دماغ کی بتی روشن ہوتی ہے اور پھر وہ ہسپتال کی طرف رفتار پکڑتے ہیں، لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے
اس کے علاوہ توہم پرستی کی بناء پر اب تک ایسی بیماریوں کو قابلِ توجہ نہیں سمجھا جاتا جو بظاہر نظر نہ آرہی ہوں وہم سمجھ کر علاج نہیں کرواتے مگر دم درود ضرور کرواتے ہیں
لیکن جب بات میل ڈاکٹر کی آتی ہے تو خواتین گھبرا جاتی ہیں ایسے میں گھر کے افراد ہی مریض خاتون کو اعتماد دے سکتے ہیں، زہنی طور پر آمادہ کر سکتے ہیں اگر گھر والے سپورٹ نہیں کریں گے تو مریض علاج کروانے سے انکار کر سکتا ہے اور مکمل مایوس ہوجاتا ہے
پاکستان میں خواتین ڈاکٹر کی بھی کمی ہے جس کی وجہ سے سرطان کی مریض خواتین بروقت تشخیص کے پروسس سے دور بھاگتی ہیں چنانچہ حکومتی سطح پر فی میل ڈاکٹرز کو اس شعبے کی طرف راغب کرنے کی مناسب منصوبہ بندی کی جانی چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین اس شعبے میں قدم رکھ سکیں اور ان خواتین کو بچا سکیں جو اپنی فطری شرم وحیا، جھجھک کی وجہ سے موت کے منہ میں جانے کو زیادہ ترجیح دیتی ہیں
اس بیماری سے متعلق آگاہی پروگرام صرف اکتوبر میں ہی نہیں بلکہ ہر ماہ نشریاتی اداروں کے تعاون سے نشر کیے جائیں تاکہ دیہی علاقے کی خواتین اتنی باشعور ہونے کے ساتھ ساتھ خوداعتماد بھی ہو سکے
المیہ اس سے بڑا کیا ہوگا کہ اب ہم بیماریوں کو بھی غیرت اور حیا سے مشروط کرنے لگ گئے کہ یہ بیماری بے شرم ہے اس لیے ڈاکٹر کے پاس نہ جاؤ اور یہ بیماری کم بے شرم ہے لہذا اس کے لیے ڈاکٹر کے پاس جاؤ، مگر دیکھو ڈاکٹر فی میل ہو…. جب تک ہم یہ ٹیبوز اپنے سماج کے زہنوں سے نوچ کر پھینک نہیں دیتے تب تک ہماری خواتین سرطان کے سامنے ہتھیار ڈالتی رہیں گی۔
خواتین کو بتایا جائے کہ اس کے سامنے ہتھیار ڈالنا نہیں ہے بلکہ ہتھیار اٹھانا ہے… خوداعتمادی کا ہتھیار، کیونکہ اس کے بغیر آپ اپنا دفاع نہیں کر پائیں گی، اور اعتماد کوئی شناختی کارڈ نہیں جو اگلے نے بنا کر دینا ہے بلکہ یہ آپ نے اپنے دم پر خود بنانا ہے کیونکہ اپنی لڑائی اگر بقا کی ہو تو خود ہی لڑنی پڑتی ہے