بارہواں کھلاڑی ٹیم سے باہر لیکن ٹیم کا بڑی باریک بینی سے مشاہدہ کرتا ہے، اسے اتنا پتہ ہوتا ہے کہ اس کو ٹیم سے کیوں باہر کیا جا رہا ہے۔ لیکن جب تک وہ ٹیم سے باہر ہوتا ہے اگرچہ وہ اپنے کام میں بڑی مہارت رکھتا ہو، لیکن حریف سائڈ اس سے مکمل مطمئن ہوتی ہے۔ چونکہ عمران خان صاحب کی سیاست میں انٹری کے بعد سیاست میں کرکٹ کی اصطلاحات کا بڑا چرچا ہوا ہے۔ اسی لحاظ سے اگر بات سیاست کی ہو جائے تو صورت حال کچھ مختلف نظر آتی ہے، کریز پر موجود کھلاڑی بارہویں کھلاڑی کی ڈیڈلائن سے پہلے ہی گبھراتے نظر آتے ہیں جس کو ابھی کافی دن باقی ہیں ۔ کہنے والوں نے کہا تھا کہ کنٹینر بھی دیں گے، لیکن نظر تو یہ آرہا ہے رستہ ملنا بھی مشکل ہے، کیونکہ وزیر اعلی خیبر پختون خواہ پہلے ہی رستہ دینے سے انکار کر چکے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ صوبہ بھر میں ایک ماہ تک جلسے جلوسوں پر بھی پابندی لگانے کا اعلان کر چکے ہیں، جب کے باقی صوبائی حکومتوں کا رستہ دینے نہ دینے کا کوئی بیان نہیں آیا، ہاں البتہ جیل کی دھمکیاں ضرور مل رہی ہیں۔ اسی لئے بارہویں کھلاڑی نے میدان میں اترنے کی بھرپور تیاری کر لی ہے، اور اپنا دریسنگ روم بھی تیار کرا لیا ہے، جو چار بلٹ پروف کنٹینر پر مشتمل ہو گا، اور بیڈ رومز ، اور واش رومز کا بھی مکمل اہتمام ہے۔ اور تو اور ہر کنٹینر کے بارے میں سنا ہے دس سے بارہ بندے بھی آرام سے بیٹھ سکتے ہیں۔
اس ساری صورتحال سے یہ معلوم ہوا کہ مولانا بڑے ضدی ہیں، جس بات پر ڈٹ جائیں پھر کسی کی نہیں سنتے۔ عمران خان صاحب نے ان کو اپنی تقریر سے بھی متاثر کرنے کی کوشش کی ، پوری قوم اس تقریر سے متاثر ہوئی اور یقیناً ایک پائیدار تقریر تھی، اب دیکھنا یہ ہے کہ کہ اس کا نشہ کب تک باقی رہتا ہے جو مولانا کا مارچ بڑی خصوصیت کا حامل ہے۔ لیکن مولانا چونکہ خود ایک پائیدار مقرر ہیں شاید اس لئے ان کے نزدیک یہ تقریر کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
مولانا کے بارے میں کہا گیا کہ وہ مذہبی کارڈ استعمال کرتے ہیں، یہاں تک کہ ان کے دامن میں جو فی الحال پناہ لئے ہوئے ہیں وہ بھی کچھ ایسا ہی ذہن رکھتے ہیں ۔ اور کہنے والوں کی مراد اس سے یہ ہے کہ ایک تو ان کی مجالس میں اکثریت مذہبی لباس زیب تن کرنے والوں کی ہوتی ہے، دوسرا یہ کہ مولانا خود جیسے بھی ہوں لیکن ان کا لباس صلحا والا ہوتا ہے، اور مولانا اپنے جلسے وغیرہ میں ختم نبوت کی بات بھی کردیتے ہیں اور اس کے تحفظ کے خلاف کسی بھی قدم کی مذمت بھی کرتے ہیں۔ لیکن مولانا نے اس بارے میں بھی بڑے واضح الفاظ میں اس کا جواب دیا، کہ جو چیز ہمارے ایمان کی بنیاد ہے، اور ہمارے آئین کا ایک عظیم حصہ ہے، کیا اس بارے میں ہمیں سمجھوتا کر لینا چاہیے۔ اس کا کھلا سا مطلب تو یہ ہوا کہ ختم نبوت کی بات نہ کرو، جو تمہارے ایمان کی بنیاد ہے اور اس کے علاوہ کسی بھی ایشو پر بات کر لو ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اگر مذہب کی بات کر بھی لی تو اس میں کون سی برائی کی بات ہے، آخر ہمارے مذہب میں ایسا کیا ہے کہ جسے کوئی مسئلہ نہ ہو اس کا سب سے بڑا مسئلہ اور رکاوٹ مذہب بن جاتا ہے۔ایسا کیا معاملہ ہے کہ مذہبی سیاست کی رٹ لگا کر سیاست کو مذہبی و غیر مذہبی میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ سیاست صرف ایک ہی ہے اسلامی مذہبی سیاست، جو یہ سیاست نہیں کر سکتا تنقید اس پر ہونی چاہیئے اس لیے کہ یہ مسلمانوں کا ملک ہے، جس میں صرف اسلامی سیاست ہونی چاہیے۔ ہاں مولانا پر اس بات پر تنقید ہونی چاہیے کہ جو باتیں کوئی دوسرا کم ہی کرتا ہے لیکن مولانا وہ باتیں اتنی کثرت سے کیوں کرتے ہیں، اور نہ جانے ان کو کون بتاتا ہے۔
مولانا کی باتوں کو دیکھا جائے تو ان باتوں میں ختم نبوت اور قادیانی گروہ کے پھلنے پھولنے کے علاوہ سر فہرست بات بقول ان کے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی ہے، مسئلہ کشمیر ہے پر ان کا ایک مخصوص بیانیہ ہے،اور ملک کی معیشت کی حالت ہےجس پر وہ اپنا موقف بڑے کھلے انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ حیرانگی اس بات پر ہے کہ اگر مولانا غلط کہہ رہے ہیں تو کوئی حکومتی کارندہ ان کو چیلنج کیوں نہیں کرتا۔ کہ حضرت جو باتیں آپ بار بار اپنے دھرنوں میں دہرا رہے ہیں ایسا آپ کس بنیاد پر کر رہے ہیں۔
ان پر یہ بھی تنقید کی جاتی رہی کہ گزشتہ کئی برس ے وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے، انہوں نے کشمیر کے لئے کیا کیا۔ چلو مان لیا کہ کچھ نہیں کیا لیکن کم از کم اپنے ہاتھ سے جانے تو نہیں دیا۔ اگر کوئی ترقی نہیں کی گئی تو کسی تنزلی کا بھی شکار نہیں ہوئے۔ لیکن آج وہ بھی حکومت سے یہی سوال کر رہے ہیں کہ آپ نے کشمیر کے لئے کیا کیا ۔ اسی لئے انہوں نے ۲۷ اکتوبر کے دن کا چناؤ کیا ہے۔ اب انتظار یہ ہےکہ کیا مولانا ۲۷ اکتوبر تک اپنے مارچ کی تیاری کر بھی پائیں گے یا نہیں۔ اور اگر کامیاب ہو گئے تو ۲۷ کے بعد کیا ہوگا۔یقینی طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن سننے میں اتنا ضرور آیا ہے کہ ڈی چوک میں درس نظامی کی اہم اہم کتابوں کی تعلیم و تعلم کا بھی ارادہ ہے۔