اجلے خوابوں کی رہ گزر کا مسافر

آج سے غالباً نو برس پرانی بات ہے کہ ایک دبلا پتلا نوجوان چہرے پر متانت آمیز مسکراہٹ،ایک اخبار اور ایک عدد فائل ہاتھ میں لیے میرے دفتر آیا۔میں یہی سمجھی کہ بہت سے نوآموز لکھنے والے اصلاح کاشوق رکھتے ہیں شاید یہ موصوف بھی اپنی شاعری کی اصلاح کے لیے تشریف لائے ہیں۔تعارف ہوا تو پتا چلا کہ آنے والے ملاقاتی فرہاد احمد فگارؔ ہیں اور کسی اخبار میں نامہ نگار ہیں۔اس وقت وہ ہفت روزہ مون کریشنز کے لیے میرا انٹرویو کرنے آئے ہیں۔باتوں کے دوران میں ہی معلوم ہوا کہ وہ مظفرآباد کی کئی دیگر ادبی شخصیات کے انٹر ویوز کر چکے ہیں۔میں اپنی عدیم الفرصتی کے باعث سے پہلے ہی بے زار تھی سو میں نے کسی اور دن آنے کا کِہ کر ٹال دیا۔کچھ دن گزر گئے میں سمجھی شاید فرہاد فگارؔ اب بھول چکے ہوں گے لیکن کہاں؟ فگارؔ نے دوبارہ فون کیا کہ میڈم آج اگر فرصت ہو تو انٹر ویو کے لیے آؤں۔میں نے ایک دفعہ پھر معذرت کر لی لیکن فرہا د کا مصمم ارادہ بدل نہ سکاسو میں نے گھر آنے کا کہا۔فگارؔ خوشی خوشی میرے گھر (واقع جلال آباد) آئے کہ آمنہ باجی اب انٹرویو دیں گی۔چائے پیتے ہوئے میں نے فرہاد کا انٹرویو کرنا شروع کر دیا۔اس سے پوچھا کہ آپ اپنے نام کے ساتھ فگارؔ کیوں لکھتے ہیں؟فرہاد نے جھینپی ہوئی مسکراہٹ سے جواب دیا کہ کچھ شاعری وغیرہ بھی کرلیتا ہوں۔ادب،تحقیق اور تاریخ کے ملے جلے موضوعات پر گفت گو ہوتی رہی۔مجھے اندازہ ہوا کہ موصوف عام گریجو یٹ نہیں جستجو اور ذہانت سے مالا مال ہیں۔میں نے فرہاد کی گفت گو سے جو کچھ محسوس کیا اس کی روشنی میں اسے مشورہ دیا کہ ایم۔اے اردو کر لو۔میں نے اسے کہا کہ مستقبل کا ایک محقق اور اسکالر آپ میں نظر آ رہا ہے۔آپ ایم۔فل اور پی۔ایچ۔ڈی کر سکتے ہیں۔باتوں باتوں میں انٹرویو کی بات پھر درمیاں میں ہی رہ گئی۔میں نے فگارؔ کے سامنے اس کی اصل راہ کی نشان دہی کی اور یہ وعدہ بھی کیا کہ جب آپ محقق بنیں گے تو کسی بڑے اخبار کے لیے آپ کو انٹر ویو دوں گی۔مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میرا مشورہ اس قدر سریع الاثر ہوگا۔کچھ عرصے بعد پتا چلا کہ فرہاد نے پاکستان کی ایک بہترین یونی ورسٹی نمل(نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگویجز،اسلام آباد) میں داخلہ لے لیا ہے۔ دو سال بعد ملاقات ہوئی فرہاد میرے گھر آئے اور بتایا کہ آپی میں نے ایم۔اے اردو،احمد عطا اللہ کی غزل گوئی کے عنوان سے مقالہ لکھ کر فرسٹ ڈویژن میں مکمل کر لیا ہے۔اس طرح فرہاد فگارؔ نے وقت ضائع کیے بغیر اسی ادارے نمل سے ایم۔فل اردو ”آزاد کشمیر کے منتخب غزل گو شعرا“کے عنوان سے مقالہ لکھ کر مکمل کیا۔موصوف اب اسی ادارے سے اردو اِملا اور تلفظ کے مباحث کے حوالے سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے عرق ریزی سے کام میں مگن ہیں۔مجھے یقین ہے کہ فرہاد کے لیے یہ کام مشکل نہیں۔میری دعا ہے کہ اجلے خوابوں کا یہ مسافر اپنی منزل پا لے لیکن یہ منزل پہ بھی ٹلنے والا نہیں نئی راہیں تلاشنے والا ہے۔ویسے بھی تحقیق اور جستجو کا سفر کہاں رکتا ہے؟عصر کی آواز بن کر جاری وساری رہتا ہے۔فرہاد کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ استعداد اور صلاحیت سے نوازا ہے۔ایم فل کے دوران میں بھی اسپِ اردو کا یہ شہ سوار اردو کے غلط العام الفاظ اور غلط اشعار کی درستی کرنے پر مامور ہو گیا۔اپنی اس مہم کے لیے موبائل ایس ایم ایس،وٹس ایپ،فیس بک اور اخباری کالمزکا سہارا لے کر لوگوں کی توجہ مبذول کرواتا ہے۔بہ حیثیت کالم نگار بھی فرہاد کا قد کاٹھ خاصا اونچا ہے۔فرہاد کے کالموں میں ایک مخصوص ادبی چاشنی کے ساتھ اصلاحِ اردو کا پہلو بھی موجود ہے۔میرے اس بھائی کے کالم ملک اور بیرون ملک کے موقر اخبار و جرائد میں تواتر سے اشاعت پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ریاستی اخبارات میں،روزنامہ سیاست،محاسب،صبح نو،دومیل،جموں کشمیر ٹائمز، جموں کشمیر وغیرہ کے ساتھ ساتھ ملکی سطح کے اخبارات اوصاف،نوائے وقت، ایشین نیوز، جناح،جہان پاکستان وغیرہ میں بھی فگارؔ کے کالمز شائع ہوتے ہیں۔”بزمِ فگارؔ“ کی اپچ ملک سے نکل کر بیرون دنیا میں بھی ہے لندن کا ماہنامہ پرواز ہویا ممبئی کا ممبئی اردو نیوز، دیگر ویب بلاگز میں ایکسپریس ہو،دنیا پاکستان ہو،آئی بی سی اردو ہو یا جسارت ہو یا دیگر ویب سائٹس اس متجسس محقق کے کالمز ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ اخبارِ اردو، اردو کالمز، سہ ماہی مطلع، ماہ نامہ قندیل، ماہ نامہ خاص بات جیسے کئی رسائل میں اس کی تحریریں دیکھ کر مجھے جو مسرت ہوتی ہے وہ ناقابلِ بیان ہے۔میں علم و ادب سے وابستہ دوستوں کو بشارت دیتی ہوں کہ ایک کالم نگار اور محقق کو آپ ایک شاعر کے روپ میں بھی دیکھیں گے۔ کچھ سال بعد فرہاد فگارؔخوب صور ت شاعری اور خوب صورت شعری مجموعے کے ساتھ ہمیں ورطہئ حیرت میں مبتلا کریں گے۔ اس بات کے ثبوت کے طور پر فرہاد کے یہ دو نعتیہ شعر دیکھیں:
غارِحراکاپہلااجالاحضورہیں
بزمِ مکان و کون کے دولھا حضور ہیں
والیل تیری زلف ہے،والعصر تیر ا عصر
سب آیتوں کے محور ومرجع حضور ہیں

حصہ

جواب چھوڑ دیں