ڈرامہ اور الیکٹرانک میڈیا کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہمارا ٹی وی اپنی ابتدا ہی سے ہمارے معاشرے پر بڑے طاقتور طریقے سے اثرانداز ہوا ہے۔ ٹی وی ڈرامہ بہت عقیدت و احترام سے گھر والوں کے ساتھ دیکھا جاتا تھا، گلیاں سونی ہو جاتی تھی، ایسا بھی سننے میں آیا ہے کہ انہماک کا یہ عالم تھا کہ پچھلے دروازے سے چور گھر کا صفایا کر گئے اور گھر والوں کو خبر تک نہ ہوئی۔
ہمارے معاشرے کی سوچ کو تبدیل کرنے میں اس صنفِ ادب کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ 80کے بے شمار ڈراموں کا یہی موضوع ہوتا تھا کہ ایک دوست ا میر جبکہ دوسرا متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ اپنے حالات کا امیر دوست کے حالاتِ زندگی سے موازنہ کرکے احساس کمتری کا شکار ہوتا اور باپ کی ایمانداری کو موردِ الزام ٹھہرا تا نظر آتا تھا۔
پھر یہ بھی پیغام ٹی وی پروگرام کے ذریعے سنجیدگی یا طنز و مزاح کے نام پر پہنچایا گیا کے”تیزی سے امیر کیسے بنا جائے” جس کا اثر عوام نے خوب قبول کیا اور عام گفتگو میں ان ڈراموں کی مثالیں دی جانے لگی۔ ہمسائے اگلے دن آپس میں بڑی فرصت سے پچھلی رات دیکھے گئے ڈراموں پر بحث کرتے اور محظوظ ہوتے۔ اس وقت کی بے ضرر تفریح نے ایسا اثر کیا کہ حقیقتاً گھروں میں اولاد اسی طرح ایماندار اور باشعور والدین کو یہ طعنہ دینے لگے کہ “آپ نے ہمارے لیے آج تک کیا ہی کیا ہے؟”
آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایماندار افراد زندگی کے ہر شعبے میں ناپید ہوگئے ہیں۔ آپ کسی مزدور، ماسی، گارڈ، یا کسی بھی اہم پوسٹ پر موجود شخص کو دیکھ لیں سب صرف پیسے کی حرص میں مبتلا ہیں۔ سب یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح بغیر محنت اور ناقص کارکردگی کے باوجود ان کو پیسے ملتے رہیں۔
اب قوم کی اصلاح کا کام بھی اسی میڈیا کو ہی کرنا ہے۔ تمام اچھی اقدار کو معاشرے میں زندہ کرنے کے لیے اچھے ادیب، سائیکالوجسٹ، صالح سوچ رکھنے والے افراد کو سامنے لایا جائے اور قوم کی بہتری کا بیڑا اٹھایا جائے۔