ٹرمپ کو نہیں اللہ کو سجدہ کریں

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پرویز مشرف کے زمانے میں پاکستان کی دو سیاسی پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت کا داخلہ پاکستان میں کسی طور ممکن ہی نہیں تھا جس میں مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی قیادتیں شامل تھیں۔ ایسا ہر دور میں ہی ہوتا رہا ہے کہ ہر وہ پارٹی جو عوام میں مقبولیت اختیار کرتی جارہی ہو یا اس بات کا امکان ہو کہ وہ عوام کے دلوں میں گھر کر جائے گی اور ہر وہ رہنما جس کا عوام میں مقبول ہوجانے کا امکان ہو یا وہ عوام میں مقبول ہو ہی گیا ہو، اس کو اور اس کی پارٹی کی شہرت کو کسی نہ کسی طرح عوام میں غیر مقبول بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی رہی ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ کوششیں بارآور بھی ثابت ہوئی ہیں اور اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود بھی عوام ان پارٹیوں اور پارٹیوں کی اعلیٰ قیادتوں کی جانب سے شش و پنج کا شکار ہو تے رہے ہیں۔

عوامی پارٹیوں یا ان کی اعلیٰ قیادت سے عوام کو بد ظن کرنے کیلئے ملک کی ساری مشینری کو استعمال کیا جانا بھی کوئی سہل کام نہیں ہوا کرتا۔ پرویز مشرف کے اولین دور میں الیکٹرونک میڈیا نام کی چند چیزیں ہی پائی جاتی تھیں اور وہ بھی مکمل طریقے سے حکومت کی دسترس میں ہی ہوا کرتی تھیں اس لئے ان پر نشر کی جانے والی خبریں ہو یا منصوبہ بندی کے کے مطابق کسی سیاسی تبدیلی کی کوششیں، عوام ایسی تمام باتوں کو شک کی نگاہوں سے دیکھا کرتے تھے لہٰذا ضروری سمجھا گیا کہ نجی چینلز کھولنے کی اجازت دی جائے تاکہ اس کی مدد سے عوام کے ذہنوں میں ایک ایسا آزاد ذریعہ نشر و اشاعت کا تصور ذہن میں ابھر سکے جس سے نشر ہونے والی خبریں ہوں یا کسی منصوبے کے مطابق سیاسی جکڑ بندیاں، عوام کو یہ یقین دلایا جاسکے یہ سب آزاد ذرائع کی مصدقہ خبریں اور اطلاعات ہیں اور ان میں کسی شک یا ابہام کی گنجائش موجود نہیں۔

ہوتا یہ ہے کہ جو گڑھے کسی کے لئے کھودے جاتے ہیں ان ہی گڑھوں میں سب سے پہلے وہی لوگ گرتے ہیں جنھوں نے دوسروں کیلئے وہ گڑھے کھودے ہوتے ہیں چنانچہ جس مشرف نے آزاد میڈیا کے نام پر درجنوں چینلوں کے گھڑھے کھودے ان میں سب سے پہلے خود اسی کو اور اس کی حکومت کو گرایا گیا اور یوں میڈیا کی آزادی کا سب پہلا اور سب سے کاری وار خود اسے اور اس کی حکومت ہی کو سہنا پڑا۔

 میڈیا کسی بھی آزادی پسند ریاست کا ہو اور اس بات کو لاکھوں کروڑوں بار ہی کیوں نہ جپا جائے، سراسر غلط اور لغو ہے۔ میڈیا اپنے تمام تر آزادی اظہار کے دعوؤں کے باوجود بھی ہر ملک کی پالیسیوں کا پابند ہوتا ہے اور وہ کسی بھی رائے کا اظہار کسی حد تک ہی کر سکتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے نجی چینلوں کو آزاد سمجھ لینا دنیا کی سب سے بڑی نادانی ہی ہو سکتی ہے۔

پاکستان کے میڈیا اور دنیا کے دیگر میڈیا کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ایک بہت واضح فرق جو سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کے تما مہذب ممالک میں میڈیا اپنے ملک کے وضع کردہ قوانین کا پاسدار ہوتا ہے جبکہ ہمارے میڈیا کا قانون “لفافے” کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ پیمرا کی صورت میں بے شک میڈیا کی آزادی اظہار کی حدود طے کردی گئی ہیں لیکن ہر دو جانب قانون کی جو شق ہر طے شدہ حدود کی حدیں توڑ کر رکھ دیتی ہے وہ “شق نمبر لفافہ 211” ہے۔ چناچہ لفافہ دائیں ہاتھوں سے دیا جائے یا بائیں ہاتھوں سے ملے، وہی کچھ عوام تک پہنچے گا جو لفافے میں بند کیا گیا ہوگا۔

ملک کی حدود سے باہر بھی “لفافوں” کی بہت دھوم دھام ہے چنانچہ باہر سے بھی یہ لفافے پاکستان میں آنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ “لفافے” اداروں کو تھمائے جائیں یا حکومتوں، سیاسی پارٹیوں یا بقول عالم کفر، دہشتگردوں کو، ہر “فارغ التحصیل” کے اقدامات لفافہ میں درج شدہ احکامات کے مطابق اٹھتے ہیں۔ پورا پاکستان “پیمرا” کی اسی “شق نمبر لفافہ 211” کے مطابق ہی چلایا جارہا ہے۔

جب روس افغانستان میں داخل ہو تو پاکستان کو کیا کرنا ہے۔ جب ریمنڈیوس سر عام دو پاکستانیوں کو گولیاں مار کر ہلاک کردے تو کیا کارروائی کرنی ہے، جب ایران سے گیس لینے کے منصوبے بنائے جائیں تو کیا پالیسی بنانی ہے، جب نواز دور ہو تو سیاسی پارٹیوں کا کیا رویہ ہونا چاہیے، جب کشمیر پر بھارت ظلم و ستم کی انتہا کررہا ہو تو پاکستان کو خاموش رہنا چاہیے، کب جہاد فرض ہوگا، کب جہاد قتال میں بدل جائے گا، کب لوگ مجاہدین کہلائیں گے اور کب مجاہدین دہشتگرد قرار دے کر بوٹیاں بوٹیاں کر دیئے جائیں گے اور پھر دوبارہ کب اور کیوں مجاہدین کہلانے لگیں گے۔ کب کشمیر اٹوٹ انگ کہلایا جائے گا، کب اس کشمیر پر حق جتا نا، جو بھارت کے قبضے میں ہے، حرام کہلانے لگے گا، کب کارگل پر چڑھائی جائز ہوگی، کب وہاں موجود فوجوں کو واپسی کا حکم دیا جائے گا۔ کب امریکہ کو اس بات کی اجازت ہوگی کہ وہ پاکستان کی سرزمین کو افغانستان کیلئے استعمال کرے اور کب اس پر پاکستان کی سر زمین تنگ کردی جائیگی۔ غرض ہر کام کیلئے ہر ادارے، حکومت، سیاسی پارٹیوں، مذہبی گروہوں اور پاکستان میں موجود غداران وطن کیلئے پاکستان سے باہر مختلف ممالک کے “پیمرا” کے آرٹیکل “شق نمبر لفافہ 211” آنے شروع ہوجاتے ہیں اور سب وابستگانِ “شق نمبر لفافہ 211” کے مطابق حرکت میں آجاتے ہیں اور پھر ان لفافوں میں موجود ہڈیاں میڈیا کے منہ میں بھی حسب ضرورت ٹھونس دی جاتی ہیں۔

خبریں ہیں کہ “پاکستانیوں کو کشمیر جاکر بھارت کے خلاف جہاد کرنے سے روکنے کے بارے میں وزیراعظم عمران خان کے بیان پر امریکا کی جانب سے خوشی کا اظہار کیا گیا ہے”۔ تفصیل کے مطابق “امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا بیور ایلس ویلز نے کہا ہے کہ کشمیر جاکر نہ لڑنے سے متعلق پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا حالیہ بیان اہم اور قابل تعریف ہے اور ہم اس بیان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

ہر قوم کا لیڈرایسی ہنگامی صورت میں قوم کے حوصلے بلند کیا کرتا ہے، اس کے لہو کر گرماتا ہے اور ان کے جذبوں کو جلا بخشا کرتا ہے۔ پاکستان پہلے بھی بڑی بڑی جنگوں کے مصائب جھیلتا رہا ہے اور کچھ میں اسے حزیمت کا سامنا بھی رہا ہے لیکن اس وقت کے کسی بھی سربراہ مملکت نے بزدلی یا دوں ہمتی کا مظاہر نہیں کیا اور نہ ہی قوم کو اس بات سے کہا کہ وہ اپنے جذبوں کے شعلوں کو سرد کرے بلکہ درائے سندھ کو خون سے لال کردینی اور آخری سانس تک مقابلہ کردینے کی بات کی۔ پاکستان اور خاص طور سے مسلمانوں کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ سننے اور دیکھنے میں آیا کہ قوم کا سربراہ قوم کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے میں لگا ہوا ہے۔ یہ بات کسی بھی طور ایک المیہ سے کم نہیں۔ امریکہ کا اس بات پر خوش ہونا اور جہاد جہاد کی آوازوں کا اٹھانے والوں کو مسلسل دہشتگرد قرار دینا مسلمان اور پاکستان دشمنی کی کھلی دلیل ہے۔ اگر اس کے باوجود بھی پاکستان کے حکمران اور عسکری طاقتیں ٹرمپ کو اپنا دوست سمجھے ہوئے ہیں تو پھر ان سب کی حب الوطنی اور اسلام دوستی کا از سر نو جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔ اس بات کی خطرناکیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ “عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا بیور ایلس ویلز نے وزیراعظم عمران خان کے بیان کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا تمام دہشت گرد گروہوں سے نمٹنے کا عزم علاقائی استحکام کے لیے اہم ہے اور یہ خطے میں پائیدار امن کا ضامن بھی ہوگا”۔

ان ہی باتوں کو سامنے رکھ کر امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا صاف صاف کہنا ہے کہ “وزیر اعظم نے ایل او سی کی طرف جانے والے کو غدار اور ملک دشمن ہونے کا بیان ٹرمپ اور مودی کو خوش کرنے کے لیے دیا ۔انہوں نے کہا ہی دانشمندانہ بات کی ہے کہ “اگر ہم نے کشمیر کی آزادی کی جنگ سری نگر میں نہ لڑی تو پھر مظفر آباد لاہور اور اسلام آباد میں لڑنی پڑے گی”۔ یہ بات اس لئے بھی نہایت درست ہے کہ انڈین آرمی چیف نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ہمارا اگلا ہدف آزاد کشمیر ہے اور اگر پاکستان کسی قسم کے مذاکرات کا خواہشمند ہے تو وہ آزاد کشمیر پر بات کرے۔ انڈین آرمی چیف کی یہ بات اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ سراج الحق کی بات نہ صرف قرینِ قیاس ہے بلکہ یہی صورت حال رہی تو پاکستان کو بچانا بھی مشکل میں پڑ سکتا ہے۔ جب آج نہیں تو کل، پاکستان کو جنگ سے گزرنا ہی ہے تو پاکستان کے پاس کشمیر میں داخل ہونے کا اس سے بہتر کوئی اور موقع ہو ہی نہیں سکتا۔ کشمیر ایک آزاد ریاست ہے اور اگر ایک آزاد ریاست میں بھارت داخل ہو سکتا ہے تو بین الاقوامی قانون کے مطابق پاکستان کو بھی ایسا کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

ٹرم کو سجدہ کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ اس ایک اللہ کو سجدہ کریں جس کے قبضہ قدرت میں جان و مال اور عزت و آبرو ہے۔ یاد رکھیں کہ اہل کفر کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ پیمرا کی “شق نمبر لفافہ 211” کی سجدہ ریزی سے گریز کرتے ہوئے اللہ کے حکم کے مطابق قوم کو جہاد کا حکم دیا جائے اور انڈیا کے ظلم و جبر سے کشمیریوں کو رہا ئی دلائی جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان کی جانب سے ان کی مایوسیاں، پاکستان کے کشمیریوں کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں