پاکستان میں صحت سے متعلق آگاہی کی ضرورت

پاکستان میں جسمانی،نفسیاتی،ذہنی امراض میں لوگوں کی بڑی تعداد(ملک کی ایک تہائی آبادی) مبتلا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ آگاہی کی کمی ہے۔ بڑی وجوہات یہ ہیں۔ اکثریت کو خالص اور متوازن غذا میسر نہیں ہے۔ معاشی تنگی کی وجہ سے لوگ بہتر غذا خرید نہیں پاتے اور بہتر علاج نہیں کرا پاتے۔ ملک کی 99 فیصد آبادی کو نہیں معلوم کہ غذائی چارٹ کیسے بنائیں۔ کھانوں کا انتخاب کیسے کریں، سرکاری اسپتالوں میں صفائی اور طبی سہولتوں کی کمی رہتی ہے، معیاری اسپتالوں میں فیس بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی ہر ایک استطاعت نہیں رکھتا۔ اکثر ڈاکٹرز مریضوں کو مہنگی اور ضرورت سے زائد ادویات تجویز کرتے ہیں تا کہ انہیں زیادہ فیس ملے اور ادویات کی خریداری پر بھی کمیشن لیتے ہیں۔ نجی اسپتالوں کی انتظامیہ غیر ضروری طور پر مریضوں کو زیادہ دن اسپتال میں رکھتی ہے تا کہ زیادہ بل لے سکے۔ ایک جنرل فزیشن مریض کو فوری آرام کے لیے انجکشن بھی لگادیتا ہے۔ درد سے فوری آرام دینا ایمرجنسی میں بہت ضروری ہوتا ہے۔ لیکن عمومی امراض میں فوری علاج کے بجائے مستقل اور مناسب علاج ہونا چاہیے۔ یہ کام ماہر طبیب کرسکتے ہیں۔ عام فزیشن(طبیب) جن کی مہارت کم ہو اور جو صرف علاج کے بجائے کاروبار کررہے ہوں وہ نہ صحیح تشخیص کرپاتے ہیں نہ مناسب علاج۔ لوگوں کو اگر بنیادی طبی اصول، غذائی چارٹ پر معلومات دی جائے تو امراض میں کمی ممکن ہے۔ لیکن پاکستان میں عام لوگ خود اپنی صحت سے لاپروائی برتتے ہیں۔ سگریٹ، پان، گٹکے کا بے تحاشا استعمال انسانی جسم اور دماغ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔یہ اشیامارکیٹ میں کھلے عام دستیاب ہیں اور لوگ انہیں خرید کر کھا رہے ہیں۔لوگ ورزش میں دلچسپی نہیں لیتے اور غذائی پرہیز بالکل نہیں کرتے۔ ڈاکٹرز کے پاس جاکر دوائیں لیکر انجیکشن لگواکر آجاتے ہیں۔ معذوروں کی تعداد بھی ملک میں اسی لئے زیادہ ہورہی ہے۔ معذور لوگ بھی اگر ابتدا میں ہی جسمانی ورزش، فزیوتھراپی کرلیں تو جسمانی معذوری پر قابو پایا جاسکتا ہے۔پاکستان میں اس کام کی اشد ضرورت ہے کہ جسمانی و ذہنی امراض کی روک تھام کے لیے لوگوں کو صحت کے بنیادی اصول پر آگاہی دی جائے۔ ورزش، غذائی پرہیز، غذائی چارٹ پر عمل کرنے کا رجحان پیدا کیا جائے۔۔ایسے صحت مراکز ہونے چاہییں جہاں لوگوں کو صحت آگاہی (مفت یا بہت کم فیس پر)دینے کے لیے ماہرین موجود ہوں۔ سرکاری اور نجی سطح پر پورے ملک میں ایک بھی مرکز ایسا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ نفسیاتی امراض کی عمومی وجوہات یہ ہیں۔
گھریلو لڑائی جھگڑے، معاشی تنگی، پسند کی شادی نہ ہونا، کوئی ذہنی صدمہ، والدین کی طرف سے بچوں کو مناسب تربیت کا ماحول نہ ملنا، شوہر بیوی کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونا۔ ماہر نفسیات کا کام یہ ہوتا ہے کہ ایسے مریضوں سے اور ان کے گھر والوں سے تبادلہ خیال(ڈسکس) کرکے ان کی نفسیاتی اُلجھن کی اصل وجہ معلوم کرے اور مشاورت کرے تا کہ مریض کو اس مسئلہ پر قابو پانے میں مددمل سکے اور وہ نارمل زندگی بسر کرسکے۔ لیکن ماہرین نفسیات میں ایسے بہت کم ہیں جو مریض کی الجھن کی اصل وجہ جلد معلوم کرکے اسے نارمل کردیں۔ زیادہ تر ماہرین فوری طور پر مریض کو سکون پہنچا نے والی ادویات دیتے ہیں اور اصل وجہ معلوم نہیں کرپاتے۔ادویات اور بے مقصد لمبی گفتگو مہینوں سالوں مریض سے کرتے رہتے ہیں جبکہ اصل وجہ معلوم کرنا صرف تین سے چار نشست (سیشن) میں ممکن ہوتا ہے۔پاکستان میں ایلوپیتھی طریقہ علاج سب سے زیادہ مقبول ہے اس کے بعد جڑی بوٹیوں سے علاج اور ہومیوپیتھی طریقے ہیں۔ جڑی بوٹیوں (ہربل) طریقہ علاج کو پاکستان میں مزید فروغ ملنا چاہیے۔ کیونکہ یہ قدرتی طریقہ ہے اور لمبے عرصہ استعمال کرنے سے ضمنی اثرات بہت ہی کم ہوتے ہیں،اس کے برعکس ایلوپیتھی ادویات کے ضمنی اثرات بہت ہوتے ہیں۔فوری (ایمرجنسی حالت) اور پیچیدہ نوعیت کے امراض میں،سر جری میں ایلوپیتھک طریقہ زیادہ کارآمد ہے تاہم عمومی امراض کا قدرتی جڑی بوٹیوں کے طریقہ سے علاج کریں تو زیادہ بہتر ہے۔ پاکستان میں کئی معیاری ہربل کمپنیاں ہربل پروڈکس تیار کررہی ہیں۔
پاکستان میں امراض میں اضافہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں ان کا جائزہ لینا اور روک تھام ضروری ہے۔عام وجوہات یہ ہیں،بازار میں دستیاب کھانے پینے کی اکثر اشیاء ملاوٹ شدہ ہوتی ہیں مثلا دودھ گھی وغیرہ۔لوگوں کو پینے کا صاف اور معیاری پانی بھی بازار سے خریدنا پڑتا ہے،ملک کے بعض علاقوں میں پانی بہت مشکل سے دستیاب ہوتا ہے،لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی پورے ملک کا ایک بڑا مسئلہ ہے، خصوصا کچی آبادیوں میں لوگوں کو آلودہ پانی ملتا ہے۔غریب لوگ بازار سے صاف پانی خرید نہیں سکتے انھیں آلودہ پانی ہی استعمال کرنا پڑتا ہے۔ملک کی بڑی آبادی کو جو کہ غریب اور متوسط طبقہ پر مشتمل ہے متوازن خوراک میسر نہیں،ناکافی خوراک سے صحت بہتر نہیں ہوسکتی۔لوگوں کی اکثریت سگریٹ،پان،گٹکے اور دیگر مضر صحت اشیا کا بکثرت استعمال کرتی ہے، یہ اشیا مہلک امراض کا باعث بنتی ہیں۔مثلا کینسر،دل کے امراض،مرگی وغیرہ۔سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں کا دھواں پھیپھڑوں کے امراض اور الرجی پیدا کرتا ہے۔چھوٹی بڑی ہر گاڑی سے دھواں نکلتا ہے اور فضا میں پھیلتا رہتا ہے اور فضائی آلودگی کا سبب بنتا ہے۔اس کے علاوہ ارد گرد کا زیادہ شور ذہنی تناؤ کا سبب بنتا ہے اس میں زیادہ ٹریفک کا شور ہے۔فیکٹریاں،کارخانے بھی آبادی سے دور ہونے چاہییں تاکہ ان سے نکلنے والا دھواں اور شور لوگون کے ذہنی سکون میں خلل نہ ڈالے۔
صحت برقرار رکھنے کیلئے ورزش بھی ضروری ہے بالخصوص وہ لوگ جو روز مرہ کاموں میں جسمانی مشقت بالکل نہیں کرتے انھیں جسمانی ورزش ضرور کرنا چاہیے۔جسمانی ورزش یا مشقت نہ کرنے سے جوڑوں کا درد،پٹھوں کی کمزوری ہوجاتی ہے۔وزن بھی بڑھ جاتا ہے،وزن کا زیادہ ہونا ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کا باعث بن سکتا ہے۔فزیو تھراپی طریقہ علاج میں جو ورزش کرائی جاتی ہے وہ جسم کے کسی ایک حصے کیلئے مخصوص ہوتی ہے جبکہ مکمل ورزش وہ ہے جو پورے جسم کے جوڑ،پٹھوں کو حرکاتmovements میں لائے،جسمانی ورزش میں ہلکے انسٹرومینٹس instruementsاور مشینیں بھی استعمال ہوتی ہیں،ہمارے ملک میں اس کے ماہرین کم ہیں،اس کے علاوہ نفسیاتی امراض کی ایک بڑی وجہ لوگوں کا ایک دوسرے سے منفی برتاؤ ہے،غصہ سے بات کرنا،بلاوجہ چیخنا چلانا،مارپیٹ کرنا،یہ رویہ نہ صرف کسی فرد کے جنونی manic ہونے کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس سے دیگر لوگ ذہنی پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔گھروں میں،محلوں میں،سماجی حلقوں میں لوگوں میں ایک دوسرے کیلئے برداشت اور ہمدردی کا جذبہ ہونا چاہیے۔خراب رویہ کا اجتماعی ماحول بڑے پیمانے پر نفسیاتی امراض پیدا کرتا ہے۔والدین کی طرف سے یا اسکول میں اساتذہ کی طرف سے بچوں کی زیادہ مار پیٹ تشدد انھیں ذہنی کمزور بنادیاتا ہے اور ان کی ذہنی صلاحیتیں دب جاتی ہیں۔بڑھتے ہوئے امراض کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ علاج کے ساتھ امراض کی اصل وجوہات کو بھی ختم کیا جائے۔

حصہ

4 تبصرے

  1. Hello, i read your blog from time to time and i own a similar one and i was
    just wondering if you get a lot of spam comments? If so how do you stop it, any plugin or
    anything you can suggest? I get so much lately it’s driving me mad so any support
    is very much appreciated.

  2. Whats up are using WordPress for your blog platform? I’m new
    to the blog world but I’m trying to get started and create my own. Do you require any html coding knowledge to make your own blog?
    Any help would be really appreciated!

جواب چھوڑ دیں