تعلیم کے لئے توجہ لازم ہے۔اخبار بینی و غیر نصابی کتب کا مطالعہ بھی مطالعہ کے درجہ میں آتا ہے لیکن اس میں اور حصول علم کے مطالعہ میں نمایا ں فرق پایاجاتا ہے۔ حصول علم کے لئے کئے جانے والے مطالعہ کے واضح مقاصد ہوتے ہیں جن میں سب سے اہم تحصیل علم کا منشاء ہوتا ہے۔ حصول علم کامطالعہ دیکھنے، سننے،سوچنے،پڑھنے اور لکھنے پر مشتمل ہوتا ہے۔یہ افعال علم میں اضافہ کاسبب بنتے ہیں۔حصول علم کے متلاشیان کا ان تما م مراحل کو سر کر نا ضروری ہوتا ہے۔ان مشکل مراحل کو اگر کوئی طالب علم آسانی سے سر کر نا چاہتا ہے تو وہ اپنی قوت انہماک یعنی توجہ (Attention)کو بہتر بنائے۔قوت انہماک کو فروغ دینے میں ایجوکیٹرز کا اہم کردار ہوتا ہے۔یہ اساتذہ کی قابلیت اور تجربہ پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اپنے طلبہ میں قوت ارتکاز،توجہ(Attention/concentration)کو کس طرح فروغ دیتے ہیں۔استاد کا کام طلبہ میں ذوق و شوق پیدا کر نا ہوتا ہے۔بچے جب شوق و ذوق سے متصف ہوجاتے ہیں تو وہ اپنی منزلوں کا سراغ خود پالیتے ہیں۔اسکولی زندگی میں ممکنہ معلومات (علم) سے بہرور کرنے کے ساتھ ساتھ اوصاف حمیدہ (عادات)کی داغ بیل ڈالی جا تی ہے۔اسی لئے اسکول کے ابتدائی ماہ و سال کی نہایت اہمیت ہوتی ہے۔ اس عمر میں طلبہ سے تعلیمی سرگرمیوں کے لئے مددگار مہارتوں کو سیکھنے کی توقع کی جاتی ہے۔ایک طالب علم جو جذبہ توجہ،انہماک و ارتکاز سے متصف ہوتا ہے وہ اپنے ذہن کو حصول علم و اکتساب کے لئے آسانی سے تیار کر لیتا ہے۔ توجہ و انہماک کا فروغ بہترین اکتسابی برتاؤ و تبدیلی کا نقیب ہوتا ہے۔ طلبہ توجہ و انہماک کے ذریعہ موثر اکتساب کی راہیں از خود تلاش کر نے کے قابل بن جا تے ہیں۔عدم دلچسپی و انہماک کا فقدان طلبہ کے حصول علم میں رکاوٹ کا ایک اہم سبب گرداناگیا ہے۔طلبہ کی توجہ کو مرکوز و مبذول کرنے کے ہنر سے استاد کی آشنائی ضروری ہے۔اسکول طلبہ کو آنے والی زندگی کی تیار ی کے ساتھ مسائل کا سامنا کرنے اور ان کے حل کی صلاحیت پیدا کر تاہے۔ تحصیل علم میں معاون افعال توجہ و انہماک کے زیر سایہ ہی پرورش پاتے ہیں۔ اسی لئے اسکولی زندگی میں توجہ و انہماک کی نمو و ترقی ضروری ہوتی ہے۔ ایک استاذ کا فرض عین ہے کہ وہ بچوں میں توجہ و انہماک کو جاگزیں کریں تحصیل علم میں مددگاراور توجہ و انہماک کو فروغ دینے والی مہارتوں و تکنیک سے بچوں کو آراستہ کر یں۔اکثر طلبہ عدم توجہ کی وجہ سے اساتذہ کی تنقید و تحقیر کاشکار ہوجاتے ہیں۔ اساتذہ کا یہ عمل طلبہ میں توجہ پیدا کرنے کے بجائے ان کو تعلیمی عمل سے کوسوں دور کردیتا ہے۔ عدم توجہ و منتشر ذہن کی بناء طلبہ کی تنقید و ملامت غیر فطری عمل ہے جو ان کی فطری صلاحیتوں پر خطرناک اثرات مرتب کر تی ہے۔ اس طرز عمل سے وہ اکتساب میں ترقی تو کجا تحصیل علم سے بھی متنفر ہوجاتے ہیں۔ تحقیر اور تمسخر کے سبب بچے علم سے دوری اختیار کر نے لگتے ہیں۔ بچوں میں انہماک و توجہ کو نمو و ترقی دینے والے علوم اور مہارتوں سے اساتذہ کا متصف ہونا اشد ضروری ہے۔بعض اسا تذہ اپنی شخصیت،شفقت اور برتاؤ کی وجہ کمرۂ جماعت میں قدم رکھتے ہی طلبہ کی توجہ و انہماک کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔اساتذہ سے طلبہ کی وارفتگی اور چاہت بھی توجہ و انہماک پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔اساتذہ بچوں میں عدم توجہ کے سد باب کے لئے اصلاحی طریقوں کو اپنائیں۔ بچوں کی توجہ حصول علم کی جانب منتقل کرنے میں مددگار علوم سے اپنی تدریس کو موثر بنائیں۔طلبہ کے خصوصی مشاہدے،اغلاط کی اصلاح ا ور شفقت بھرے برتاؤ کے ذریعہ ان میں جذبہ توجہ و انہماک کو پیدا کریں۔ اساتذہ کاطلبہ کانفسیاتی مشاہدہ، اکتسابی مسائل سے و اقفیت بچوں کی مثبت تعلیمی ترقی کے لئے لازمی شمار کیئے جاتے ہیں۔ طلبہ میں انہماک کے ذریعہ ذہانت اور نصابی سرگرمیوں کو بہتر انجام دینے کی صلاحیت پروان چڑھتی ہے۔طلبہ میں عدم توجہ و عدم انہماک کی جو علامات پائی جا تی ہیں ان میں قابل ذکر
(۱)جب کوئی ان سے راست گفتگو کر تا ہے تو وہ اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پاتے ہیں۔
(۲)اکثر لاپرواہ واقع ہوتے ہیں جس کی وجہ سے کام میں اغلاط کا پایا جانا طئے شدہ امر ہے۔ عدم توجہ کی وجہ سے یہ اغلاط کا شکارہوجاتے ہیں۔
(۳)درس و تدریس کے دوران غیر آرام دہ محسوس کرنے کے باعث آسانی سے عدم توجہ کا شکار ہوجاتے ہیں۔سبق پر توجہ نہیں دے پاتے ہیں جس کی وجہ سے اکتسابی عمل پر خراب اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
(۴)تعلیمی سرگرمی کی انجام دہی کے وقت کسی بھی غیر متعلق اور بیرونی (Extraneous)محرکہ کی وجہ سے ذہنی طور پر انتشار کا شکار ہوجا تے ہیں۔
(۵) مکمل سوال سنے بغیر ہی جواب دے بیٹھتے ہیں۔ غلط جواب دینے کی وجہ سے صحیح سمت سے بھٹک جا تے ہیں۔
(۶) خود کو غیر آرام دہ محسوس کرنے کی وجہ سے توجہ مرکوز نہیں کرپاتے اور بر ے برتاؤ کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
(۷)کسی بھی کام کو تکمیل تک نہیں پہنچاتے ہیں بلکہ ایک کام کو مکمل کرنے سے پہلے ہی دوسرے کام کو انجام دینا چاہتے ہیں۔
(۸)عدم توجہ کی وجہ سے دوسروں کے کام میں بھی خلل پیدا کرتے ہیں۔
شعوری انہماک (Conscious Attention)کو فروغ دینا اور قائم رکھنا تعلیمی سرگرمیوں کی انجام دہی کے لئے ضروری ہوتا ہے۔طلبہ کی توجہ مبذول کرنے کے لئے ان پر دباؤ ڈالنے کے بجائے انہماک کی اہمیت سے واقف کرنا اہم ہوتا ہے۔ کسی بھی اکتسابی سرگرمی کی انجام دہی کے لئے طلبہ میں شعوری انہماک کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ شعوری انہماک کے با عث دماغ کے مخصوص اعصابی خلیے نیوران(Neuron) متحرک ہوجاتے ہیں اور معلومات کی شفاف اور بہتر ترسیل میں اہم کردار انجام دیتے ہیں۔ہمارے دماغ میں جالی دار متحرک نظام پایا جا تا ہے جس کو(Reticular activating (RAS)(Sysytemکہاجاتا ہے۔یہ نظام دماغ کے دیگر حصوں کو اشارات(Signals)کی ترسیل کے ذریعہ کنٹرول کرتا ہے۔شعوری طورپر توجہ کو مرکوز کرتے ہوئے اس نظام کو متحرک بنایا جا سکتاہے۔ذہن میں گردش کرنے والے خیالات کاسیلاب،تفکر سے آگہی، صورت حال کا ادراک اور انجام دیئے گے اعمال سے واقفیت شعوری انہماک کے عکاس ہوتے ہیں۔توجہ اختیاری (Voluntary)اورغیر اختیاری(Involuntary) ہوتی ہے۔بعض مرتبہ محرکہ (Stimuli)طاقتور ہوتا ہے جس کی وجہ سے انہماک پیدا کرنے کے لئے زیادہ کوشش کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ بغیر کسی کوشش کے فروغ پانے والے انہماک کو غیر اختیاری (Involuntary Attention) از خود انہماک کہاجاتا ہے۔انہماک اس وقت اخیتاری (Voluntary)ہوجاتا ہے جب کوئی شعوری طور پر کسی فعل کو انجام دینے کی کوشش کر تا ہے۔طلبہ کو حصول علم کے دوران کئی موقعوں پر شعوری انہماک کے اطلاق کی ضرورت پڑتی ہے تا کہ تحصیل علم کو ممکن بنایا جا سکے۔ذہن کو کسی بھی کام کی بروقت تکمیل کے لئے اس کے مقصد سے روشناس کرناضروری ہوتا ہے۔کسی بھی خشک اور دلچسپی سے عاری مضمون کو شعوری توجہ کے ذریعہ دلچسپ بنایا جا سکتا ہے۔تحصیل علم میں دلچسپی اور توجہ کو لازم و ملزوم قراردیاگیاہے۔ اگر شعوری طور پر کسی بھی چیز پر توجہ دی جائے تو یقینا وہ دلچسپی اور تحصیل علم کے فروغ کاباعث ہوتا ہے۔طلبہ میں علم کے حصول کا ایک متحرک احساس یقینا خوش گوار انہماک اور دلچسپی کو قائم کرتا ہے اسی لئے اساتذہ میں توجہ مرکوز کروانے کا ملکہ ضروری ہوتا ہے۔جسمانی اور طبعی تال میل کے ذریعہ توجہ کے حصول اور اطلاعات کے انجذاب کو ممکن بنا یا جاسکتا ہے۔
دوران مطالعہ توجہ کی ضرورت: اساتذہ اپنی تدریس کو کامیابی سے ہمکنار کر نے اور موثر بنانے کے لئے ایسی حکمت عملی کا استعمال کریں جس سے طلبہ کی اکتسابی صلاحیت کو فروغ ملے۔کسی بھی فعل کی انجام دہی میں توجہ و انہماک نہ صرف اکتسابی دلچسپی کو بر قرار رکھنے میں مددگار ہوتے ہیں بلکہ اکتسابی معیار کی ترقی اور طلبامیں خود اعتمادی کے اضافے کا سبب بھی بنتے ہیں۔منہمک ذہن کے ساتھ انجام دیئے جا نے والی سر گرمیاں ذہن میں دائمی جگہ بنالیتی ہیں اور ان کابا ٓسانی اعادہ ممکن ہوتا ہے۔ انہماک و توجہ کو فروغ دینے والے عوامل سے طلباء کو آگاہ کرنا ضروری ہوتا ہے جس سے طلباء کی تعلیمی کیفیت میں بہتری پیدا ہو تی ہے اور وہ تعلیم میں کیف و سرورحاصل کر تے ہیں۔ توجہ و انہماک کے ذریعہ حاصل شدہ اکتساب کا معیاراونچااور اعلیٰ ہوتا ہے۔انہماک و توجہ کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ طلبہ کو درج ذیل امور سے واقف کروایا جائے
(۱) توجہ و انہماک کے حصول کے لئے طلبا کیا،کیوں،اور کیسے پڑھیں کا جائزہ لیں۔
(۲) توجہ میں خلل پیدا کرنے والے امور سے مکمل اجتناب کریں اگر کوئی توجہ میں خلل پیدا کرنے کی کوشش کر ے تو سختی سے روک دیں۔
(۳) سبق کی تدریس کے دوران عدم توجہ سے بچنے کے لئے اہم نکات(نوٹس) تحریر کر یں۔ روشن لکیر کے راہی بننے کے بجائے کسی بھی نتیجہ کو عقلی و سائنسی طور پر استدلال و استخراج کے ذریعہ قبول کریں غلط مفروضات کو اپنے علم کی روشنی میں چیالینج کریں۔
(۴) توجہ کے ارتکاز کے لئے جسم و ذہن کو حاضر رکھیں۔
(۵)دوران مطالعہ وہ تمام عوامل جو عدم توجہ کا با عث بنتے ہیں یا پھر توجہ کے فروغ میں رکاوٹ بنتے ہیں سے مکمل احتراز کر یں۔اس طرح کا خود کار قابو طلباء میں ترجیحات کی تمیز پیدا کر ے گا۔ توجہ کو منتشر کرنے والے خارجی و داخلی عناصر پر توجہمرکوز نہکریں۔ ترجیحات کی ترتیب سے لغو اعمال سے بھی وہ اجتناب کر یں گے۔
(۶) شور و غل اور ہنگامہ خیز ماحول سے توجہ بہک جا تی ہے اسی لئے مطالعہ کے لئے خاموش اور پر سکون جگہ کا انتخاب کریں جس سے توجہ کا ارتکاز باقی رہے گا اور حصول علم کے جذبے کو بھی فروغ ملے گا۔
انہماک و توجہ کے فروغ کے لئے مراقبہ کی ضرورت: مراقبہ جذباتی اور ذہنی خلفشار پر قابو پانے میں نہایت سود مند ثابت ہوتا ہے اسکولی بچوں میں روز انہ صرف چند منٹ کے مراقبہ کی عادت ذہن پر قابو پانے اور توجہ کو مرکوز کرنے میں سود مند ہوتی ہے۔اسکول میں مراقبے کے ذریعہ طلبہ کواضطراب اور تھکاوٹ سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔تعلیمی تحقیق و تجربات سے یہ با ت ثابت ہوچکی ہے کہ کمرۂ جماعت میں مراقبہ کے ذریعہ طلبہ کی توجہ و انہماک کو فروغ دینے کے علاوہ ا ن کی ذہنی و جذباتی کیفیت پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔چند منٹ کے مراقبہ کی عادت و مشق طلبہ کے ذہنی و جذباتی نظم کو بہتر بنانے میں ممد و معاون ہوتی ہے۔مراقبے کے ذریعہ بچوں میں خود انضباط (Self-discipline) کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے۔طلبہ کے ذہنوں پر حملہ آور ہونے والے افکار سے مراقبے کے ذریعہ قابو پایا جاسکتا ہے۔ ذیل میں پیش کئے گئے طریقوں کے ذریعہ مراقبے کو موثر بنایا جا سکتاہے۔ مدرسے میں ایک کمرۂ جماعت یا ہال جس کے اطر اف کا ماحول پرسکون اور خاموش ہومراقبے کے لئے استعمال کیا جائے۔مراقبے کے دوران جسم کو پرسکون اور آرام دہ رکھیں پیروں کو موڑکر،کمر کو سیدھا رکھتے ہوئے فرش پر بیٹھ جائیں آنکھیں موند لیں ہاتھوں کو گود میں یا اپنے زانو پر رکھ لیں۔کھلی آنکھوں سے بھی مراقبہ انجام دیا جا سکتا ہے لیکن حضور قلبی کے لئے آنکھیں موند لینا بہتر ہوتا ہے۔ کرسی پر بھی مراقبہ کو انجام دیا جا سکتا ہے۔ کر سی یابینچ پر بیٹھنے والے طلبہ کمر اور پیٹھ کو خم نہ دیں بلکہ سیدھا رکھیں۔بہتر نتائج کے حصول کے لئے تلوں کو راست زمین سے مس کر یں۔ سانس پر توجہ دیں۔سکون سے لمبی،گہری سانس لیں اور آرام سے سانس چھوڑیں۔ اس عمل کے دوران جسم میں باقاعدہ ٹھنڈی سانس کے ادخال اور گرم سانس کے اخراج کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ تیز سانس لینے سے اجتناب کر یں۔مراقبہ کے دوران کسی بھی فکر کو اہمیت نہ دیں۔بعض مرتبہ خیالات بہت ہی طاقتور ہوتے ہیں اور ان سے بچنا بھی مشکل ہوتا ہے ایسے موقعوں پر شعوری طور پر سانس شماری کے ذریعہ ایسے خیالات سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔خوف،اضطراب،ناامیدی اور غصہ جیسے منفی خیالات اگر ذہن میں ابھرنے لگیں تو ان کے ضرر سے خود کو محفوظ رکھتے ہوئے گزر جانے دیں۔راضی بہ رضا کا عقیدہ آپ کے اعتماد کو متزلزل ہونے سے محفوظ رکھے گا۔ابتدا ء میں چند منٹوں کا مراقبہ بھی کا فی ہوتا ہے لیکن یہ چند منٹوں کا مراقبہ ایک خوش گوار،سود مند اور مطمئین زندگی کا نقطہء آغاز بن جاتا ہے۔ اس عمل کی مشق ذہنی سکون و آسودگی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔لمحاتی مراقبہ کے بعد طویل مراقبہ کے ذریعہ ذہن کو پر سکون اور انہماک و توجہ کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔مراقبہ کومنفی خیالات اورآلودگی سے محفوظ رکھتے ہوئے بہتر وموثر بنایا جاسکتا ہے۔مراقبہ کی قدر وا فادیت آپ کے صبر و استقامت پر منحصر ہوتی ہے۔
طلبہ کی توجہ کو قائم رکھنا:بچے دلچسپ اور فائدہ مند محرکہ پر توجہ دیتے ہیں۔دلچسپ تعلیمی ماحول کو پیدا کرنا اور ہر شئے سے کچھ نہ کچھ اخذ کرنے کی صلاحیت بچوں میں پیدا کرنا ایک استاذ پر منحصر ہوتی ہے۔طلبہ کی توجہ کو قائم رکھنے میں درج ذیل نکات کلیدی کردار انجام دیتے ہیں
(۱)استاذ مضمون کی مناسبت سے طلباء میں محرکہ (Stimuli) پیدا کرے۔دوران تدریس اپنی حرکات و سکنات کے ذریعہ پر اثر تعلیمی ماحول کو وجود میں لائے۔
(۲)مضمون و موضوع کی تفہیم کے لئے موزوں طریقہ کار کو استعمال کرے۔
(۳)آسان،سادہ طریقہ تدریس کو اپنائے۔مشکل و پیچیدہ موضوعات و نکات کی عام فہم اور آسان تشریح کرے۔سہل اور آسان طریقہ تدریس طلباء کی توجہ کو قائم رکھنے میں مددگار ہوتا ہے۔
(۴)درس کو چھوٹے وقفوں میں منقسم کر یں تاکہ موضوع و مضمون کی تفہیم سہل ہوجائے۔مسلسل اور طویل تدریس طلباء کی توجہ کو برقرار رکھنے میں مانع ہوتی ہے۔
(۵)استاذ طلباء میں اس احساس کوجاگزیں کر ے کہ تمام جماعت کی سرگرمیاں اس کے زیر مشاہدہ ہے۔(۶)ایجوکیٹرز طلبہ کے معیار،علمی سطح، ضرورتوں اور دلچسپیوں سے کما حقہ آگہی پیدا کریں تاکہ تدریس کو ان کے مطابق بنایا جاسکے۔
(۷)طلبہ کو احساس دلائیں کہ جو کچھ معلومات ان کو فراہم کی جارہی ہے وہ ان کی زندگی کے لئے فائدہ بخش ہے۔
(۸) طلبہ کو مطلع کریں کہ سبق کی تدریس کے دوران آپ ان سے سوالات کرنے والے ہیں اور سبق کے اختتام پر سبق کا خلاصہ بھی ان سے حاصل کر یں گے۔اس طرح کا طرز عمل طلباء کی توجہ کو قائم رکھنے میں مددگار ہوتا ہے۔
(۹)طلبہ سے ان کے معیار کے مطابق مضمونپر گفتگو کریں اور اظہار کا موقع فراہم کریں اور آرا پر مثبت رائے زنی کریں۔اظہار کے موقعوں کی فراہمی کے ذریعہ طلبہ کی توجہ کو برقرار رکھا جاسکتاہے۔
(۰۱)سمعی،بصری اور دیگر تعلیمی اشیاء کے استعمال سے طلبہ کی توجہ کو قائم رکھا جاسکتا ہے۔اساتذہ زندگی سے وابسطہ اور زندگی کے لئے درکار علوم و مہارتوں کو برؤے کار لاتے ہوئے درس و تدریس کو نہ صرف موثر بنا سکتے ہیں بلکہ طلبہ کی تعلیمی کیفیت اور ذہانت کو قوت ارتکاز (توجہ) کے ذریعہ بلندیوں تک پہنچاسکتے ہیں۔