١٩٨٨کا واقعہ ہے-
کراچی کے تعلیمی اداروں میں جمیعت کے کارکنان پر ایم کیو ایم کی طلبہ تنظیم کے وابستگان کا تشدد روز مرہ کا معمول بن چکا تھا ایک دن میں نے اس صورت حال کے حوالے سے ایم کیو ایم کی قیادت سے براہ راست بات کرنے کا فیصلہ کیا اور تنہا ایم کیو ایم کے مرکز ٩٠ پہنچ گیا –
الطاف حسین ، عظیم طارق اور عمران فاروق سمیت وہاں موجود سب ہی لوگ مجھے اکیلے دیکھ کر حیران رہ گۓ –
رسمی سلام و دعا کے بعد ملاقات شروع ہوئی –
میں نے کہا کہ آپ کی پارٹی الیکشن جیت چکی ہے اور ہم نے آپ کے مینڈیٹ کو کھلے دل سے تسلیم بھی کیا ہے تو اب شہر کا مفاد اسی میں ہے کہ آپ اپنا کام کریں اور ہم اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں –
یہ بات سن کر الطاف حسین نے تقریر کے انداز میں بات کرنا شروع کردی، لہجہ بھی کرخت ہوگیا- کہنے لگے کہ منور بھائی ! آپ لوگوں نے ہمارے مینڈیٹ کو دل سے تسلیم نہیں کیا – اب بھی کراچی میں آپ کے اتنے ، آپ کی خواتین کے اتنے ، جمیعت کے اتنے اور لیبر فیڈریشن کے اتنے پروگرامات ہورہے ہیں ، انہوں نے ایک فائل میں سے پڑھ کر مجھے تفصیل سنائی – یہ سب آپ کو بند کرنا ہوگا ، منور بھائی … غور سے سن لیں –
مجھے انکی بات اور لہجے پر حیرت بھی ہوئی اور غصہ بھی آیا –
میں نے ان سے کہا کہ ” جماعت اسلامی ایک دعوتی جماعت ہے کوئی عام سیاسی پارٹی نہیں ھے اور ہماری سرگرمیاں جاری رہیں گی خواہ ہمارے ساتھی روزانہ شہید ہوتے رہیں، کتنا ہی تشدد ہو، ہم ہرحال میں پر امن رہ کر اپنا کام کرتے رہیں گے “
یہ کہہ کر میں اٹھا اور ان کے دفتر سے نکل آیا –
ادارہ نور حق پہنچ کر ملاقات کا حال بتایا تو سب کا یہ کہنا تھا کہ آپ کو تنہا وہاں نہیں جانا چاہیے تھا …
سید منور حسن ، مجھے اور ڈاکٹر خالد کو ٨٠ کی دہائی کا یہ واقعہ سنا رہے تھے اور ہم دونوں محو حیرت تھے کہ یہ آدمی کون سی مٹی سے بنایا گیا ہے ؟
میرا دل چاہا کہ منور صاحب کو ایک باقاعدہ سیلوٹ پیش کروں …. نہیں کرسکا ، اس لئے کہ عظمت و جرات کے اس پہاڑ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے پوری قوم کا سیلوٹ بھی ناکافی ہوتا !!!
آج الطاف حسین لندن میں جلاوطن ہیں ، عظیم احمد طارق اور عمران فاروق اپنے اعمال ناموں کے ساتھ اپنے خالق حقیقی کے پاس جاچکے –
سید منور حسن اور انکی جماعت کی سرگرمیاں الله کے فضل و کرم سے جاری و ساری ہیں –
جزاک اللہ