گنتی کے چند روز

سورۃ البقرہ میں اللہ ربّ العزت نے روزوں کی فرضیت کے حکم کے بعد کتنے بہترین انداز میں تسلی دی کہ ’’ گنتی کے چند روز ہی تو ہیں‘‘۔ یہ گنتی کے چند دن بجلی کی سی تیزی سے گزرتے جارہے ہیں۔

یہ وقت نیکیاں سمیٹنے اور اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کرنے کا ہے۔ اگر کسی مال میں سیل لگی ہو وہاں نہایت ہی کم داموں میں اعلی معیار کی چیزیں مل رہی ہو تو کیا اس مال میں رش نہیں ہوگا ؟؟ بے شک ہوگا لوگوں کا ہجوم اس قدر ہوگا کہ ان کو سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔ اس فانی دنیا کی وقتی چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے جب انسان اتنی تگ ودود کرسکتا ہے تو کیا باقی رہنے والی نعمتوں، فضیلتوں، اور ربّ العالمین کو راضی کرنے کے لیے محنت اور کوشش نہیں کرسکتا ؟؟ بالکل کرسکتا ہے، اور اسے کرنا ہی چاہیے۔ کیونکہ اسی میں اس کی دنیا و آخرت کی بھلائی مضمر ہے۔

رمضان المبارک تو صبر کا مہینہ ہے ، اللہ ربّ العالمین رمضان المبارک کے ذریعے بندہ میں تقوی پیدا کرتا ہے ۔ یہ وہ مہینہ ہے کہ جس کے شب و روز میں رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے ۔ اللہ ربّ العالمین کا فرمان ہے ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا ‘‘سو چئے کتنی عظیم عبادت ہے روزہ جس کی جزا ربّ العالمین نے خود اپنے ذمہ لی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ’’روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی بو سے زیادہ پسندیدہ ہے ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس مہینہ کو پاتے تو اس میں خوب عبادات کرتے، صدقہ و نوافل ادا کرتے، لوگوں کے ساتھ اور بھی زیادہ احسان کا معاملہ فرماتے ، اور جب اس ماہ کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو مزید عبادت کے لیے کمر کس لیتے خود بھی جاگتے اور اپنے اہل وعیال کو بھی اس کی تاکید کرتے۔ ہمارے ہاں اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ پہلے پہل تو رمضان المبارک کا خوب اہتمام کیا جاتا ہے روزے،نوافل، صدقات، تراویح نہایت انہماک سے ادا کی جاتی ہے۔ لیکن جیسے جیسے دن گزرتے جاتے ہیں جوش و خروش میں کمی آجاتی ہے۔ ایسا رویہ نہایت ہی غلط ہے بلکہ شروع سے آخر تک وہی جذبہ جوش و خروش ہونا چاہئے اور اس میں وقت گزرنے کے ساتھ مزید اضافہ ہونا چاہئے ۔

ان مبارک ایام میں انسان اپنے خالق سے جڑے، اس کے سامنے اپنی عاجزی اپنی بے بسی کا اظہار کرے ، خوب توبہ و استغفار کرے۔ خالق کو بتائے کہ وہ اپنے گناہوں پر کس قدر شرمندہ ہے ۔ اس سے بخشش طلب کرے ،اسے راضی کرنے کی کوشش کرے۔ اب تو انسان کے پاس مصروفیت کا کوئی جواز بھی نہیں.

اللہ تعالیٰ نے فانی دنیا کی مصروفیتوں میں گم انسان کوفراغت بخش دی ہے اسی لیے اب تو اللہ ربّ العالمین سے اپنا تعلق مضبوط بنانے کا ایک اچھا موقع ہے ۔ لہٰذا ان چند دنوں کی قدر کرلیں اور انھیں منصوبہ بندی کے ساتھ گزاریں یہ بڑے قیمتی دن ہیں جو دوبارہ نہیں مل سکتے، کوئی نہیں جانتا کہ آنے والے سال میں وہ ماہ صیام کو پاسکے گا یا نہیں۔ کیونکہ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو رمضان کی سعادتیں پانے سے پہلے ہی اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے ۔ انہوں نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ وہ اس ماہ مبارک سے محروم رہ جائیں گے ۔ خود کو خوش نصیب سمجھئے کہ اللہ ربّ العالمین نے آپ کو ان قیمتی گھڑیوں سے نوازا ہے اس پر اس ربّ العالمین کا شکر ادا کریں اور اپنے اس وقت کو زیادہ سے زیادہ عبادت میں گزاریں۔