ماہ رمضان ! ایثار اور ہمدردی

رمضان المبارک کا مہینہ، روزے ،نمازتراویح یادمحض دیگرعبادات کا ہی نام نہیںبلکہ یہ ایک ایسا موقع ہے جو ہمیں اپنی زندگی کے بنیادی اصولوں پر غور کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ماہ مقدس ہمیں صبر، برداشت، ہمدردی اور سب سے بڑھ کر ایک دوسرے کی مدد کرنے اور ایک دوسرے کے لیے گہرا احساس پیداکرنے کا درس دیتا ہے۔جب ہم خود روزے کی حالت میں بھوک اور پیاس کی شدت سے گزرتے کرتے ہیں، تب ہمیں ان لوگوں کا حقیقی احساس ہوتا ہے جو سال بھر غربت وتنگ دستی کے باعث بھوک وافلاس اوردیگر مشکلات میں زندگی بسر کرتے ہیں۔

اسلام کی بنیاد ہی ایثار، قربانی اور ہمدردی پر ہے، اور رمضان ان خوبیوں کو عملی جامہ پہنانے کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ رمضان کے دوران خیرات، زکوٰۃ اور صدقات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ مخیر حضرات غریبوں کے لیے افطار اور سحری کا اہتمام کرتے ہیں، لوگ مساجد اور فلاحی اداروں میں عطیات دیتے ہیں، اور پڑوسیوں، رشتہ داروں اور ضرورت مندوں کی مدد کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ جذبہ صرف رمضان تک محدود رہنا چاہیے؟ اگر ہم رمضان میں سیکھے گئے اسباق کو سال بھر اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں، تو ہمارا معاشرہ حقیقی معنوں میں فلاحی اور ہمدرد معاشرہ بن سکتا ہے۔

ہمارے ارد گرد ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں جو مختلف قسم کی پریشانیوں اور مشکلات کا شکار ہیں۔ کچھ مالی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں، کچھ بے روزگاری کا سامنا کر رہے ہیں، کچھ بیمار ہیں، اور کچھ تنہائی اور بے بسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ رمضان ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم ان تمام افراد کے لیے نرم گوشہ رکھیں،صلہ رحمی کے رویے کوعام کریں، ان کی مشکلات کو سمجھیں اور حتیٰ الامکان ان کی مدد کریں۔ مدد کا مطلب صرف مالی امداد نہیں ہوتا، بلکہ کسی کو اچھے الفاظ سے تسلی دینا، کسی بیمار کی عیادت کرنا، کسی بے سہارا کو حوصلہ دینا، یا کسی ضرورت مند کو کام تلاش کرنے اورہنرسیکھنے میں مدد فراہم کرنا بھی ایثار اور ہمدردی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ وہ چھوٹے چھوٹے عمل ہیں جو معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔

رمضان المبارک کا ایک اور عظیم درس معاشرتی ہم آہنگی اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہے۔ یہ مہینہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم اپنی ذات سے نکل کر دوسروں کے بارے میں سوچیں، دوسروں کے مسائل کو اپنی ترجیح بنائیں، اور نفرتوں، تعصبات اور طبقاتی تفریق کو ختم کریں۔ افطار کے وقت جب ایک ہی صف میں غریب اور امیر، مالک اور مزدور، اور سفید پوش اور محنت کش ایک ساتھ بیٹھ کر کھاتے ہیں، تو یہ منظر ایک مثالی اسلامی معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب ہم سب کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس طرح اس مساوات اور بھائی چارے کو پورے سال برقرار رکھ سکتے ہیں۔

رمضان کریم ہمیں صرف وقتی طور پر نیکیاں کرنے کی ترغیب نہیں دیتا، بلکہ یہ ہمارے کردار اور رویوں کو مستقل بہتر بنانے کا مہینہ ہے۔ اگر ہم اس مہینے میں سیکھے گئے اسباق کو عملی طور پر اپنائیں، تو ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ دوسروں کی تکالیف کو محسوس کریں اور انہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔ روزمرہ زندگی میں کسی نہ کسی صورت میں خیرات اور مدد کا عمل جاری رکھیں۔ چھوٹے چھوٹے نیک اعمال کو معمول بنائیں، جیسے کسی کو راستہ دینا، کسی کا بوجھ بانٹنا، یا کسی کو اچھے الفاظ سے حوصلہ دینا۔ اپنے قریبی حلقے میں ایسے افراد کی نشاندہی کریں جو مدد کے مستحق ہیں اور ان کا سہارا بنیں۔

رمضان ہمیں صرف اپنی ذات کی اصلاح کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کی بہتری کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ مہینہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم اپنی خوشیوں کو دوسروں کے ساتھ بانٹیں، ضرورت مندوں کی مدد کریں، اور اپنے دل میں ہمدردی اور محبت کو جگہ دیں۔ اگر ہم یہ رویہ صرف رمضان تک محدود نہ رکھیں بلکہ اسے اپنی روزمرہ زندگی کا اصول بنا لیں، تو ایک ایسا معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جہاں ہر شخص دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کرے، اور حقیقی معنوں میں بھائی چارہ اور امن کی فضا قائم ہو سکے۔

آئیے، اس رمضان میںیہ عہد کریں کہ ہم ایک دوسرے کے لیے گہرا احساس رکھیں گے، اور نہ صرف اس مہینے بلکہ سال کے ہر دن ہمدردی، ایثار اور مدد کا رویہ اپنائیں گے۔ یہی وہ روحانی پیغام ہے جو رمضان ہمیں دیتا ہے، اور یہی حقیقی کامیابی ہے۔