تطہیرِ قلب کی ضرورت

ماہ رمضان کی مبارک ساعتوں منبرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ایک واقعہ یاد آرہاہے کہ ایک موقع پر نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ اب جو شخص مسجد میں داخل ہوگا وہ جنتی ہے یعنی اسکے لیے جنت کی بشارت ہے، یہی معاملہ تین روز تک پیش آیا تینوں دن ایک ہی شخص مسجد میں داخل ہوا ،صحابہ کرام کو تجسس ہوا کہ جانیں کہ ان کو کس عمل کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ نےجنت کی بشارت دی ہے ایک صحابی نے ان کے ساتھ دن رات ساتھ رہنے کی درخواست کی تاکہ جان سکیں کہ ان کا کون سا اچھا عمل ہے جس کی وجہ سے جنت کی بشارت ملی ہے۔ وہ تین دن انکے ساتھ رہے انکے معمولات زندگی بالکل ان ہی کی طرح تھےکوئی خاص عبادت یا عمل نظر نہیں آیا تو انہوں نے خود کو انکے ساتھ رہنے کا مقصد بتایا کہ نبی کریم ﷺ نے جنت کی بشارت کا بتایا تینوں دن آپ ہی آئے تو میں نے یہ جاننے کے لیے کس خاص عمل کی وجہ سے آپکو بشارت ملی ہے تو ہم بھی اسے اپنائیں اس مقصد کے لیے آپکے ساتھ تین یوم رہا لیکن میں نے دیکھا کہ آپکے اعمال تقریبا ہمارے جیسے ہیں کوئی خاص عمل نہیں محسوس ہوا اس لیے سمجھ نہیں آتا کہ آپکا کونسا خاص عمل ہے کہ جس پر،نبی کریم ﷺ نے آپکے لیے جنت کی بشارت دی ہے۔ اس پر وہ صحابی حیران رہ گئےبس اتنا کہا کہ خاص عمل تو کوئی نہیں سب آپکے سامنے ہے البتہ روزانہ رات کو سونے پہلے سب کو معاف کر دیتا ہوں، اور اپنے دل میں اپنے کسی مسلمان بھائی کے لیے کینہ بغض و عداوت نہیں رکھتا۔ دل کو پاک و صاف رکھتا ہوں۔ یہ جانتے ہی ان صحابی کو مذکورہ صحابی کو جنت کی بشارت ملنے کی وجہ سمجھ آگئی کہ دل کو پاک رکھنے سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔

تطہیر قلب کی ضرورت

ہر مسلمان کیلیے بالعموم اور رشتہ داروں کیلیے بالخصوص اپنے دلوں کو ہر طرح کے حسد بغض اور کینہ سے پاک رکھنا ضروری ہے ، *دل کی طہارت اور پاکیزگی ہی دراصل اعمال کی طہارت اور پاکیزگی کا ذریعہ* ہے۔ارشادِ ربانی ہے:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی۔  جس نے اپنے دل کو( تمام آلائشوں سے) پاک کیا وہ کامیاب ہوگیا۔ “(الاعلیٰ14)۔

امام غزالی کا ماننا ہے کہ: “دل بادشاہ ہے اور اعضاء وجوارح اس کا لشکر یعنی وزیر ہیں۔ بادشاہ اگر صحیح سلامت رہے تو اس کا لشکر بھی صحیح اور درست رہے گا۔ بادشاہ ہی بگڑ جائے تو سارا لشکر بگڑ جاتا ہے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سنو! انسان جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے ،وہ سیدھا ہوجائے تو سارا جسم سلامت رہتا کہہہے، اس میں بگاڑ اور فساد پیدا ہوجائے تو سارے جسم میں فساد پھیل جاتا ہے۔ سنو ! وہ دل ہے۔ ( متفق علیہ)

بہت سی احادیث میں بغض وکینہ کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’لوگوں کے اعمال ہر ہفتہ میں دو مرتبہ پیر اور جمعرات کے دن پیش کئے جاتے ہیں اور ہر مسلمان بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے سوائے اس بندے کے جو اپنے بھائی کے ساتھ کینہ رکھتا ہو۔ کہا جاتا ہے ’’اسے چھوڑ دو یا مہلت دو حتّٰی کہ یہ رجوع کر لیں۔ ( صحیح مسلم)

احادیث میں بغض وکینہ کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے اور قرآن مجید کی سورہ حشرآیت نمبر ۱۰ میں اللہ رب العزت نے ان فلاح پانے والوں کا تذکرہ فرمایا کہ جو مومن اپنے سے پہلے ایمان لانے والوں کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور یہ دعامانگتے میں ہیں اے اللہ ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے بارے میں بغض اور کینہ نہ آنے دے، بیشک تو بڑا شفیق، مہربان ہے۔

تمام تر بحث کا حاصل یہی ہے کہ رمضان المبارک کی جاری بابرکت ساعتوں سے بھرپور فیض اٹھانے کے لیے ہمیں اپنے قلوب کی تطہیر کرنی ہے۔ ان شا اللہ۔