مسئلہ کشمیر! عالمی بے حسی کا شکار

مسئلہ کشمیر کو قومی اور عالمی بے حسی کا شاخسانہ کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔ کشمیر کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی قراردادیں عالمی طاقتوں کی بے حسی تلے دب کر فراموش ہو چکی ہیں ان میں قرارداد نمبر 47 بھی شامل ہے جو کشمیر میں استصواب رائے کو ضروری قرار دیتی ہے۔ یہ اصول کشمیریوں کو حق دیتا ہے کہ وہ اپنی سیاسی حیثیت کا فیصلہ خود کریں اور اسی کے مطابق اپنی سماجی ، معاشی اور ثقافتی بہبود کے لیے کام سر انجام دیں۔ مگر افسوس اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں اور بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے باوجود مسئلہ کشمیر پر بین الاقوامی رد عمل بھیانک خاموشی کے سوا کچھ نہیں ۔کشمیریوں سے دنیا کی لاتعلقی پریشان کن ہے کیونکہ اس سے بین الاقوامی امن اور استحکام براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔

انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 1990 سے اب تک 8 ہزار کشمیری جبری طور پر لاپتہ جبکہ 60 ہزار سے زائد ریاستی حراست میں یا کوچہ و بازار میں شہید کیے جا چکے ہیں۔ من مانی گرفتاریاں اور ریاستی تشدد اس کے سوا ہے جس کا کشمیری دن رات شکار ہوتے ہیں 2020 کی سالانہ رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ نے ان مظالم پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اس کے مطابق سینکڑوں لوگ تو اس ظالمانہ قانون کے تحت گرفتار ہیں جو بغیر مقدمے کے دو سال تک لوگوں کو قید رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر کے عوام انسانیت سوز بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا شکار ہیں ۔ قابض بھارتی فوج نے کشمیریوں کی اواز دبانے کے لیے پیلٹ گنز کے ذریعے کئی معصوم بچوں کی بینائی تک چھین لی ہے۔ ان گنت خواتین کی عصمت دری کی گئی تو لاکھوں افراد کو شہید کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پانچ اگست 2019 کو بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کر کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی ختم کر دی جس کے بعد کشمیری عوام پر ظلم و جبر کے ایک نئے باب کا اغاز ہوا ۔

فی الوقت بھارت نے مقبوضہ وادی کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر دیا ہے جہاں شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے جبکہ لاکھوں غیر کشمیری ہندوؤں کو وہاں اباد کر کے مقبوضہ کشمیر کی ابادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔۔ بھارتی حکومت کی جانب سے جنوری 2025 تک لاکھوں ڈومیسائلز غیر کشمیری ہندوؤں کو دیے جا چکے ہیں جو اقوام متحدہ کی قراردادوں ، بھارتی آئین اور جینوا کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے۔ بھارت نے مختلف قوانین کے ذریعے مقبوضہ وادی میں غیر کشمیریوں کو اباد کرنے کے چار اہم منصوبے شروع کیے جن میں سابق فوجیوں اور ہندو پنڈتوں کے لیے کالونیز کا قیام ، پاکستانی ہندوؤں کو کشمیر کی شہریت دینا اور امر ناتھ مندر کے نام پر زمین الاٹ کرنا قابل ذکر ہے ۔

کشمیری مسلمانوں کی آواز دبانے کے لئے بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ وادی میں طویل عرصے سے کرفیو اور لاک ڈاؤن کا نفاذ ہے۔ اس دوران گھروں پر چھاپے مار کر کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کیا جاتا ہے اور پھر انہیں جعلی مقابلوں میں شہید کر دیا جاتا ہے۔ قابض بھارتی افواج کی جانب سے بے گناہ شہریوں پہ تشدد خواتین کی عصمت دردی اور معمر افراد سے تضحیک آمیز سلوک کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ کشمیری حریت پسند رہنماؤں کو من گھڑت الزامات لگا کر قیدو بند کی سخت سزائیں دی جاتی ہیں جن کے نتیجے میں اب تک کئی کشمیری رہنما دوران حراست شہید ہو چکے ہیں ۔ اس وقت کشمیری رہنماؤں اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد بھارتی جیلوں میں قید ہے جہاں ان کی زندگیوں کو شدید خطرہ خطرات لاحق ہیں۔

بھارتی حکام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے ابھرنے والی تنقیدی آوازوں کو زور زبردستی دباتے ہیں۔ سوشل میڈیا پہ نظر رکھنے کے لیے ایک اسپیشل پولیس یونٹ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو کشمیری نوجوانوں اور سماجی کارکنان کی سوشل میڈیا پر سرگرمیوں کی نگرانی پر معمور ہے جو شخص بھی حکومت پہ نکتہ چینی کرتا ہے اسے عسکریت پسندوں کا حامی کہہ کے نشانہ بنایا جاتا ہے۔۔ بھارتی حکام نے کشمیریوں کے آن لائن اختلاف رائے کو خاموش کرانے اور دبانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے ۔ حراساں کرنے، ملازمت سے نکالنے ، نظر بندیوں اور انسداد دہشت گردی کے سخت قوانین کے تحت گرفتاریوں جیسے ہتھکنڈوں کا سہارا لے کر لوگوں کو خوفزدہ کیا جاتا ہے۔۔ بدقسمتی سے کشمیر میں میڈیا کو مختلف ذرائع سے خاموش کر دیا گیا ہے اور طاقت کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو حراست میں لے لیا جاتا ہے۔

یہ تمام تر پریشان کن صورتحال بین الاقوامی توجہ کی متقاضی ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر کے حل کے ضمن میں عالمی برادری کا کردار خاصا مایوس کن رہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کی سربراہی میں شدید بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں مشرقی تیمور کو آزادی دی گئی سوڈان کی تقسیم اور جنوبی سوڈان کے قیام کے لیے بھی بین الاقوامی برادری خصوصا افریقہ اور اقوام متحدہ نے اہم کردار ادا کیا لیکن اس کے برعکس اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں اور بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے باوجود کشمیر کے مسئلے پر عالمی طاقتوں نے بھارت پر دباؤ ڈالنے سے ہمیشہ گریز کیا ہے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی مظلوم کشمیریوں کی موثر نمائندگی کرنے میں ناکام رہی ہیں۔