آج صبح سے کچھ بے چینی سی تھی وہ جلدی جلدی کام ختم کر رہی تھی جیسے کہیں جانے کی جلدی ہو یا وقت بہت کم اور کام زیادہ ہوں بیگ میں سامان ڈال کر اس نے ایک گفٹ باکس اٹھایا ساتھ کچھ پھول بھی تھے شاید کسی کی سالگرہ تھی۔
زمرہ تیز قدموں سے کالج میں داخل ہوئی اور سکون کا سانس لیا جیسے اب سب اس کے کنٹرول میں ہے تب ہی اسے نورین نے پشت سےآواز دی زمرہ سنو۔
زمرہ بھلے ہی ماڈرن اور کھلے زہن کی لڑکی تھی مگر تھی خوش اخلاق اور بہت ہی خوبصورت۔
زمرہ نے پلٹ کر دیکھا تو نقاب سے جھانکتی دو جھیل سی آنکھیں اس کے بہت قریب آ چکی تھیں۔
یار زمرہ میں تمہیں ہی لینے آرہی تھی بائیو کی کلاس کے بعد ہم حیا ڈے پر کلاس رکھ رہے ہیں زمرہ پہلے تو مسکرائی ہائے یہ جھیل سی گھیری آنکھیں۔
نورین نے کن آنکھیوں سے زمرہ کو دیکھا مکھن بعد میں لگانا پہلے بتاؤ آرہی ہو ناں؟
زمرہ ہر بار کی طرح سنجیدگی سے بولی ٹائم ملا تو ضرور آؤں گی۔
پھر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئی کچھ دیر بعد نورین کلاس سے باہر آئی تو دیکھا زمرہ کینٹن میں اداس بیٹھی ہے۔
زمرہ زمرہ یہاں کیا کر رہی ہو اکیلی؟
تم تو اپنے دوستوں کے ساتھ باہر جانے والی تھیں؟
نورین کے سوال پر زمرہ نے نم آنکھوں سے نورین کی طرف دیکھا اس سے پہلے زمرہ کے آنسوں اس کے رخسار بھیگوتے نورین نے بات پلٹ دی واہ سوٹ تو بہت پیارا پہنا ہے کہاں سے لیا۔
پر یہ بہادر لڑکی جو لڑکوں سے دوستی رکھتی تھی برو سے پورے کالج میں مشہور تھی آج نورین کے گلے لگ کر رو پڑی۔
نورین ہم عمر تھی مگر تربیت اور شعور سے زمرہ سے بہت بڑی تھی
کیا ہوا زمرہ سب ٹھیک تو ہے۔
احمد وہ احمد کسی اور کو ڈیٹ پر لے گیا ہے پچھلے دو سالوں سے ہم ساتھ تھے ، اس نے کتنے وعدے کیئے اور آج ویلنٹائن ڈے پر کسی اور کے ساتھ۔
زمرہ کے حلق میں الفاظ پھنس گئے تھے
نورین نے زمرہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔
احمد نے تمہیں پھول بھیجے
لباس گفٹ کیئے
ساتھ سفر بھی کیئے
تم سے وعدے کیئے
مگر نہیں کیا تو رشتے کو حلال نہیں کیا۔
اس نے اپنے والدین کو بھیجا تمہارے گھر رشتے کے لیئے؟
نہیں !
تمہارا لباس بنا؟
نہیں !
تمہیں ہم سفر بنایا؟
نہیں !
تم سے نکاح کیا؟
نہیں !
نورین کے سوال اور زمرہ کے جواب اس بات کی دلیل تھی کہ ایسے حرام رشتے پر رونا بنتا ہی نہیں یا تو آپ بھی اب کوئی دوسرا راستہ اختیار کر لو مطلب ٹائم پاس، ورنہ یہ سب تباہی اور آنسوں کے سوا کچھ نہیں۔
نورین کچھ حد تک اب مطمئن ہوگئی تھی اب وہ خود سے سوال کر رہی تھی۔
اس مغربی معاشرے کے ساتھ چلتے چلتے وہ یہ بھول گئی تھی کے یہ صرف وقتی ہے دل بھلانے کا ذریعہ اور کچھ نہیں حقیقی زندگی تو اسلام میں ہے کسی بھی نامحرم سے تعلق رکھنا ایسا ہی ہے جیسے تیز دھار پر اپنی گردن رکھنا وہ اب تکلیف میں تھی مگر پچھتا رہی تھی اپنے گزرے وقت پر نکاح سے مضبوط اور محفوظ رشتہ کوئی نہیں۔