چوری چھوٹی ہو یا بڑی، چوری چوری ہی رہتی ہے ۔چوری دنیاکے ہر معاشرے میں قابل سزاجرم اورقابل مذمت فعل ہے۔چوری نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ قانونی اور مذہبی اعتبار سے بھی ناقابل قبول عمل ہے تاہم بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں چوری کو دو درجوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔کم حیثیت والے چور کی چوری کوسنگین جرم سمجھا جاتا ہے جبکہ بڑے چوراکثرقانون میں موجودچوردروازوں سے بچ نکلتے ہیں۔
ٹیکس چوری کریں، یا سرکاری اہلکار کرپشن میں ملوث ہوں تو انہیں قانونی پیچیدگیوں، سیاسی وابستگیوںیا بااثر تعلقات کی وجہ سے اکثر سزا نہیں ملتی،ایسے افراد کو معاشرے میں عزت بھی ملتی ہے جس کے نتیجے میں غلط مثال قائم ہوتی ہے کہ چوری چھوٹی ہو تو سزا اورچوری اتنی بڑی ہو کہ اس کا احتساب کرنا مشکل ہوتو بچ نکلنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
محترم علی احمدڈھلوں صاحب کے کالم(سیاستدان کمزورہیں اس لئے ملک کمزورہے)کاباغورمطالعہ کرتے کرتے اللہ جنت میں اعلیٰ مقام عطافرمائے چاچاطفیل کی یادآ گئی۔چاچاطفیل ہمارے ہمسائے تھے۔ان کوبھی مرغیاں پالنے کابہت شوق یاشائد عشق تھا۔وہ اپنی مرغیوں سے انتہائی شفیق رویہ رکھتے تھے۔چاچاطفیل کی آوازبھی سریلی تھی۔ہمارے علاقے میں بھی مرغی چوری ہوناعام سی بات ہوا کرتی تھی۔ان دنوں کچے صحن اورچھوٹی دیواروں والے کشادہ گھروں میں مرغیاں پنجروں کی قیدسے آزادہواکرتیں تھیں۔مرغیاں اپنی مرضی سے گھرسے باہرچلی جایاکرتیں اورپھرخودہی واپس بھی آجاتی تھیں پراس آنے جانے میں اکثرمرغیاں چوری بھی ہوجایاکرتی تھیں جنہیں تلاش کرنے پرزیادہ تران کے کپڑے یعنی پر و کھال مل جایاکرتے تھے جس کے بعدمرغی کی تلاش ختم ہوجاتی۔چاچاطفیل اکثراپنی چھت پربلندآوازمیں اپنی چوری شدہ مرغی کے دکھ میں اپنی ہی شاعری گنگنایاکرتے تھے۔
میری ککڑی دیا(مرغی کے)چورا۔
تیریاں رگاں چے(گلے میں) نکلے پھوڑا۔
پانی لنگے تھوڑاتھوڑا۔(پانی پینے میں تکلیف پیداہوجائے)
میری ککڑی دیاچورا۔
محترم علی احمدڈھلوں صاحب نے مرغی چوری سے الیکشن چوری تک کی جو مثال پیش کی اس سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے چندگزارشات گوش گزارکرنے کی جسارت کرناچاہتاہوں۔ہمارے سیاستدان ریاست کیلئے سیاست نہیں کرتے بلکہ اپنی چوری بچانے،مزیدچوری کرنے،چورسے ترقی کرکے ڈاکوبننے کیلئے سیاستدان بنتے ہیں،مرغی چوری،کٹا،وچھا،گائے،بیل چوری سے مسجدومدرسے،سے جوتے،لوٹے،چٹایاں،چندہ بکس سے پیسوں کی چوری،قومی خزانے سے ٹیکس چوری،گیس چوری،بجلی چوری،قیمتی لکڑی،پتھرچوری،لوہا،تانبا،سونا،چاندی چوری،ترقیاتی منصوبوں سے فنڈزکی ٹیکنکل چوری اورتواور سرکاری ہسپتالوں سے مستحق مریضوں کے حصے کی ادویات چوری سے کام چوری تک ماہرقوم کے منتخب نمائندوں کیلئے ان سب قسم کی چوریوں کے ماہراستادہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکو،سمگلر،قبضہ مافیا،عالمی طاقتوں کے بااعتمادکارندے ہونابھی ضروری ہے۔
چندروزقبل خبرآئی ہے کہ مظفرگڑھ کے علاقے رنگپور میں خاتون نے بھینسوں کا گوبر چوری کرنے پر مقدمہ درج کروا دیاہے۔پولیس کے مطابق مقدمہ خاتون کے دو بھائیوں سمیت 7 افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔خاتون نے الزام عائد کیا ہے کہ ملزمان نے 35 ہزار روپے مالیت کا گوبر چوری کیا ہے۔ پولیس کے مطابق ایک ملزم گرفتار جبکہ دیگر کی تلاش جاری ہے اور گوبر برآمد کر لیا گیا ہے۔
میرے محترم علی احمد ڈھلوں صاحب اب آپ ہی بتائیں جس قوم کی بھینسوں کاگوبرتک غیرمحفوظ ہے اُس کی مرغیاں،الیکشن،قدرتی وسائل،قومی خزانہ اوروغیرہ وغیرہ کیسے محفوظ ہوسکتے ہیں؟چوری ہونے والے گوبرکی قیمت صرف35ہزاربتائی جاتی ہے ،جہاں لوگ 35ہزارکاگوبرچوری کرنے سے باز نہیں آتے وہاںجس کاجہاںتک ہاتھ پہنچے وہ اربوں،کھروبوں پرہاتھ صاف کرتاہے اورجسے اختیارملے وہ الیکشن اوروسائل کی چوری کرتاہے۔حقیقت تویہ ہے کہ ہم سب کسی نہ کسی طرح اس چورنظام کاحصہ اورحصے دارہیں۔ ہم بھی ماں جی کی سلائی مشین سے دھاگے کی نلکیاں چوراکرگڈیاں(پتنگیں )اُڑایاکرتے تھے۔ دوسروں کوچورچورکہنے اورجتناہاتھ لگے لوٹ لینے کی عادت عام ہوگئی ہے ۔بات توسچ ہے مگربات ہے رسوائی کی۔
پاکستانیوں کی دنیابھرمیں دھوکے باز،فراڈاورنوسربازجیسے القابات سے پہنچان قائم ہوچکی ہے۔کھانے، پینے کی اشیاء میں ملاوٹ اورناپ تول میں کمی جیسے سنگین گناہ (جرم)اس قدرعام ہیں کہ لوگ اپناحق سمجھنے لگے ہیں۔جس الیکشن کے چوری ہونے پرہمیں شدیدتکلیف ہوتی ہے وہ الیکشن خودبھی چورہے۔محترم ڈھلوں صاحب اب آپ ہی بتائیں سوائے شریف فیملی کے کوئی شریف آدامی الیکشن میں حصہ لے سکتاہے؟فرض کریں حصہ لے سکتاہے توکیاقبضہ مافیا،ٹاوٹ مافیاجیسے امیرترین طبقے کے مقابلے میں الیکشن جیت سکتاہے؟جہاں ووٹرزکسی بااخلاق،باکردار،تعلیم یافتہ اہل امیدوارکویہ سوچ کاووٹ نہ دیں کہ وہ جیت بھی گیاتوغنڈے جیتا الیکشن چھین لیں گے اورشریف آدمی دیکھتارہ جائے گا۔دہرے معیارکے سبب بڑے چورکوسہولیات ملنااورچھوٹے چورکی پکڑ ہوناہی مسائل کی اصل وجہ ہے جسے ختم کرناحکومتوں اورعوام کی مشترکہ ذمہ داری بنتی ہے ۔
چوری چھوٹی ہو یا بڑی اس کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے ہم انصاف، قانون کی بالادستی اور حقیقی ترقی چاہتے ہیں تو ہمیں ہر طرح کی چوری کو یکساں طور پر برا سمجھنا ہوگا۔ ایک عام آدمی کی جیب کاٹنے والا اور قومی خزانہ لوٹنے والا دونوں ہی جرم کے مرتکب ہیں، اور ہم اس تضاد کو ختم کر کے انصاف کو یقینی بنائیں تو ہی بہتر اور محفوظ معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے!۔