ہر قوم اور برادری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ بغیر کسی تفریق و رکاوٹ یا کسی پابندی کے اپنے عوام کی خواہشات کے مطابق کرے۔ بھارت نے سلامتی کونسل کی قرارداوں کے مطابق حق خودارادیت کو کشمیر کا حق تسلیم کرلینے کے باوجود ہمیشہ انہیں اس حق سے محروم رکھا اور سات عشرے گزر جانے کے باوجود وہ ان قرارداوں پہ عملدرآمد سے انکاری ہے ۔ وہ ان قرارداوں کو کاغذ کے ٹکڑوں سے ذیادہ اہمیت نہیں دیتا اس میں عالمی طاقتیں اس کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔
کشمیری مسلمانوں میں اس مُسلسل انکار، امتیازی سلوک، ظالمانہ قبضہ اور ریاست کی داخلی خود مختاری سے انکار کے رویئے نے بے چینی، اضطراب و مایوسی پیدا کردی جس کا نتیجہ 1990ء کی بغاوت و مزاحمتی تحریک کی صورت میں سامنے آیا۔ اس تحریک کا مقبول نعرہ ” آزادی اور حق خودارادیت ” دراصل کشمیری عوام کا واحد مطالبہ تھا۔ اس پہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پہ فوج اتار کر انسانیت سوز مظالم کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع کردیا جو آج تک جاری ہے۔ گرفتاریاں، جیلوں میں وحشیانہ تشدد ، زیر حراست قتل ، اندھا دھند فائرنگ جس سے ہزاروں کشمیری زندگی بھر کیلئے معذور ہوگئے یہ سب وہاں معمول بن چکا ہے۔
1990ء کی اس تحریک مزاحمت کے نتیجے میں غیرجانبدارانہ ذرائع کے مطابق بھارتی سفاک سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید کردیئے گئے۔ کشمیری قیادت پہ حملے کئے گئے۔ کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک کے بانی عظیم رہنما سید علی گیلانی کو متعدد بار گرفتار و نظربند کیا گیا یہاں تک کہ ان کی پیرانہ سالی کا بھی کوئی لحاظ نہ رکھا گیا آخرکار پانچ سال کی طویل نظربندی کے دوران ہی یکم ستمبر 2021ء کو وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کا مقبول نعرہ ” ہم پاکستان ہیں ، پاکستان ہمارا ہے” آج بھی جنت نظیر وادی میں گونج رہا ہے۔ کشمیری خواتین پہ بھی مظالم کی انتہا کردی گئی ہے ہزاروں خواتین کو ہراساں کرنے جنسی زیادتی و عصمت دری کرنے اجتماعی زیادتی کے بعد انہیں قتل کرنےکے سیکڑوں واقعات تاریخ کے صفحات میں رقم ہوچکے ہیں اور بھارت کے کالے کرتوتوں کے گواہ ہیں۔ ماوں کے پیٹوں سے بچوں کو نکالنے ان کو نیزوں پہ پرونے ، گولیاں مارنے کی داستانیں بھارت کے مکروہ چہرہ کو عیاں کرتی ہیں ۔
ہندوستانی ریاست نے آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ ( AFSPA) ، پبلک سیفٹی ایکٹ( PSA) کے ذریعے اپنے مظالم کو قانونی تحفظ فراہم کیا۔ ان ایکٹس کے ذریعے کشمیری عوام کو بلاجواز گرفتار کرنے ،غیر قانونی حراست میں رکھنے ان پہ تشدد اور قتل کرنے کا جواز فراہم کیا گیا۔ کشمیری عوام کے ساتھ اس ظلم و زیادتی کو بین الاقوامی قوانین، انسانی قوانین اور لاتعداد بین الاقوامی معاہدوں کی رو سے عالمی سطح پہ چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ کشمیر پہ ظلم کی داستان یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ظلم کی ایک نئی شکل 5 اگست 2019ء کو دنیا کے سامنے آئی۔ جب بھارت نے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا۔ آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی سے غیرقانونی یکطرفہ طور پہ ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہوگئی ۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ( جوکہ ہندو توا کے فلسفے کو فروغ دینے والے کہلاتے ہیں ) اس فیصلے کے ذریعے کشمیر میں آبادیاتی اور سیاسی تبدیلیوں کیلئے یہ فیصلہ کیا۔ آبادی کے توازن کو غیر فطری طریقے سے انجینئرنگ انداز میں غیرمتوازن کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اس کے ذریعے پلان یہ بنایا گیا ہے کہ جب رائے شماری کرانی پڑ ہی جائے تو مسلم اکثریت کو ہندو اکثریت میں بدل کر مطلوبہ نتائج حاصل کر لئے جائیں۔
مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے اور کشمیر پہ اپنی گرفت مضبوط رکھنے کیلئے نئی دہلی نے اپریل 2020ء میں جموں و کشمیر کیلئے نئے ڈومیسائل قوانین متعارف کرادیئے ہیں۔ ان قوانین کے تحت انڈین حکومت نے بھارت سے غیر کشمیری ہندوؤں کو لاکھوں ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کئے ہیں تاکہ کشمیر میں رہائش اور جائیدادیں خریدنے کا قانونی حق مل جائے۔ جب کہ یہ چوتھے جنیوا کنوینشن کی کھلی اور سنگین خلاف ورزی ہے ۔ اس کے آرٹیکل 49(6) قابض طاقتوں کو اپنی آبادی کو مقبوضہ علاقے میں منتقل کرنے سے روکتا ہے۔ اس وقت مقبوضہ جموں وکشمیر میں 9 لاکھ سے زائد ہندوستانی فوج تعینات ہے۔ مقبوضہ کشمیر میدان جنگ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ 2024ء میں بھارت نے اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں میں 3 کمر عمر لڑکوں سمیت 101 کشمیریوں کو بے گناہ شہید کیا۔ ان میں 50 جعلی مقابلوں میں یا دوران حراست بہیمانہ تشدد کرکے شہید کئے گئے۔ خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ رہائشی مکانات کو تباہ کیا گیا، مظاہرین پہ طاقت کا استعمال کیا گیا جس سے 67 افراد زخمی ہوئے، تلاشی اور گھروں پہ چھاپوں کے دوران حریت رہنماؤں، انسانی حقوق کے کارکنوں، وکلاء، طلباء، خواتین سمیت ساڑھے تین ہزار کے قریب افراد کو گرفتار کیا گیا۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ ، محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ سمیت پانچ ہزار سے زیادہ کشمیری نئی دلی کی بدنام زمانہ جیل تہاڑ اور دیگر بھارتی جیلوں کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کی جیلوں میں کالے قوانین کے تحت قیدوبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے دینی حقوق بھی سلب کرلئے ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہےنماز جمعہ ، نماز عیدین ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔کشمیریوں کی جائدادیں ضبط کرلی گئی ہیں( جبکہ بھارت اپنے آپ کو سیکولر ریاست کہتا ہے) بھارت اس طرح حق خودارادیت کے مطالبے کو بزور طاقت دبانا چاہتا ہے۔ جموں و کشمیر اس وقت ایک دہکتا الاو ہے جس سے کسی بھی وقت ایک بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ دنیا کو مقبوضہ کشمیر کے تنازعہ کو انسانی بنیادوں پہ حل کرنے کی جانب فوری توجہ دینا ہوگی۔ سیاسی و انسانی بنیادوں پر اس مسئلہ کا منصفانہ و غیرجانبدارانہ، فوری و مستقل حل نکالنا ہوگا ۔ پاکستان کو مقبوضہ کشمیر میں بگڑتی صورتحال پہ پوری سنجیدگی و دلسوزی کے ساتھ سوچنا ہوگا۔ سیاسی،عسکری و مذہبی و دینی جماعتوں کو کشمیر کے ایشو پہ ایک پیج پہ آنے کی ضرورت ہے۔ کل جماعتی کانفرنس حکومتی سطح پہ منعقد کی جائے ۔
بھارت کو ان سنگین اقدامات سے روکنے کیلئے مشترکہ لائحہ عمل طے کیا جائے۔ قوم بن کر اس مسئلہ کا حل نکالا جائے۔ بھارت سے تمام تر تجارتی تعلقات منقطع کئے جائیں ۔بھارت کو مجبور کیا جائے کہ وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو جو کہ 2019ء سے پہلے تھی واپس اسی حیثیت کو بحال کرے ۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی قانونی و اخلاقی حمایت کی جائے ۔ان پہ مظالم اور غاضبانہ قبضے کے خلاف موثر اور توانا آواز بلند کی جائے ۔ ان کا حق خودارادیت دلانے اور بھارت کو کشمیرمیں رائے شماری کرانے ، 2019ء کے بعد سے کی گئ ناجائزآبادیوں کو منسوخ کرانے ، اقوام متحدہ کی قرارداوں پہ فی الفور عملدرآمد کرانے منضفانہ انتخابات کرانے کیلئے عالمی سطح پہ بھرپور مہم چلائی جائے جس میں پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو شریک کیا جائے اس کے ذریعے کشمیر کے ایشو پہ قومی اتحاد و یکجہتی کا پیغام بھارت کو دیا جا سکے۔ عوام الناس کو بھی بھارتی مصنوعات و بھارتی کلچر سے لاتعلقی کا اظہار کرنا ضروری ہے ۔ قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا تھا ۔دشمن نے حالیہ اقدامات کے ذریعے پاکستان کی شہ رگ کو کاٹنے کے تمام انتظامات مکمل کرلئے ہیں کیا ہم اب بھی نہیں جاگیں گے ۔بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے لانا ہوگا اس ظلم کے خلاف پوری قوت سے آواز بلند کرنی ہوگی ۔