“اُم حسن ! تھوڑی دیر سو جاؤ” لیلیٰ نے اس کی بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے تیسری بار کہا .اب نیند کہاں آتی ہے؟ تم تو میری حالت سے واقف ہو نہ کچھ کھایا پیا جاتا ہے نہ سویا جاتا ہے۔۔بس جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے کچھ لقمے نگل لیتی ہوں۔ اس طرح تو تم بیمار ہو جاؤ گی پیاری دوست لیلیٰ نے اسے پانی دیتے ہوئے کہا۔
مجھ سے وہ منظر نہیں بھولتا لیلیٰ جب میں حسن کے لیے کھانے کا انتظام کرنے تھوڑی دیر کے لیے باہر گئی تھی اور میری آنکھوں کے سامنے بموں کی برسات شروع ہو گئی تھی ۔گرد و غبار کے طوفان میں کچھ نظر نہیں آرہا تھا اور جب طوفان تھما تو میرا ہنستا بستا گھر کھنڈر میں تبدیل ہو چکا تھا۔ میرا حسن۔۔۔ میری روح ۔۔۔۔میرے جگر کا ٹکڑا کہیں نظر نہ آیا تو میں دیوانہ وار اسے ڈھونڈھنے کے لیے بھاگی تھی لیکن بے سود ،سب کے گھروں کا ایک ہی حال تھا۔ ہاں مجھے یاد ہے پھر تم بے ہوش ہو گئی تھیں اور ہم سب تمہیں لے کر رفاہ کیمپ آ گئے تھے اس دن سے آج تک نہ تم ڈھنگ سے کچھ کھاتی ہو نہ سوتی ہو، نہ ہنستی ہو نہ بولتی ہو ، تم سورہ والضحیٰ پڑھتی رہو اللہ تمہیں سکون دے گا لیلیٰ اس کی دل جوئی کرتے ہوئے بولی۔ اس نے آنکھیں موند لیں اور اب وہ خاموشی کی زبان میں دست دعا دراز کیے ہوئے تھی، “اے میرے رب !اے بادشاہوں کے بادشاہ! بے شک آپ دکھے دلوں کی پکار سنتے ہیں۔مجھے معلوم ہے حسن اب اس دنیا میں نہیں ہے وہ جنت کا مکین ہو چکا ہے بس ایک بار آپ مجھے اس عالم اسباب میں میرے بچے کو دکھا دیں تاکہ میرے بے قرار دل کو قرار آ جائے،میں آپکی رضا میں راضی ہوں آپ بھی مجھ سے راضی ہو جائیے” دعا مانگتے ہوئے جانے کب وہ نیند کی وادیوں میں چلی گئی۔
اگلی صبح لیلیٰ کی آواز سے اس کی آنکھ کھلی ۔وہ چلا رہی تھی اُم حسن اٹھو ! اُم حسن اٹھو، جنگ بندی کا اعلان ہو گیا ہے۔.اب ہم اپنے گھروں کو واپس چلیں گے، یہ سننا تھا کہ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی میرا حسن میں اسے ڈھونڈوں گی وہ مجھے مل جائے گا ،چلو چلو، جلدی کرو میرے رب نے میری دعا سن لی اور اجازت ملتے ہی وہ گروپ کی صورت میں وہاں پہنچے تو ملبہ ہٹانے کا کام جاری تھا۔ اس نے دیوانہ وار، رضا کاروں کے ساتھ اپنے حسن کو ڈھونڈنا شروع کیا اور آخر کار اس کی باقیات ملنی شروع ہو گئیں ۔اففف وہ قیامت کا منظر جب ایک ماں نے اپنے بچے کو ٹکڑوں کی صورت میں اپنی گود میں لیا دیکھنے والوں کے کلیجے پھٹ گئے ۔۔۔قلم نےاس غم کی کیفیت کو لکھنے سے انکار کر دیا ۔۔۔۔لیکن آفرین ہے اس ماں کو جس کی زبان سے صرف شکر کے کلمات جاری تھے کہ رب نے اس کے دکھی دل کی پکار سن لی۔ اب اس کی بے چین روح کو صبر آ جائے گا کیونکہ یہ ایک مومن کے ایمان کا حصہ ہے کہ ” انا للہ وانا الیہ راجعون” ترجمہ:بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے”۔
اللہ اُم حسن جیسی تمام ماؤں کو صبر جمیل عطا کرے اور ان کو بہترین نعم البدل عطا فرمائے۔ غزہ کے ننھے مجاہدو! تم نے اپنے لہو سے اپنے چمن کی آبیاری کی ہے، رب العالمین تم معصومین کی قربانیوں کو ہرگز ضائع نہ کرے گا ہم نہ سہی ہماری آنے والی نسلیں ضرور بیت المقدس کو آزاد ہوتا دیکھیں گی اور فلسطینی اپنی آزاد ریاست میں سکون سے زندگی بسر کر سکیں گے ۔ان شاءاللہ ۔