فیک نیوز اور سوشل میڈیا

بدھ کووفاقی حکومت کی جانب سے پیکا ترمیمی بل 2025 ء قومی اسمبلی میں پیش کر دیاگیاہے، بل کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائیگی، جھوٹی خبر پھیلانے والوں پر3سال قیداور20لاکھ تک جرمانہ عائد کیا جاسکے گا،اسلام مخالف،پاکستان مخالف،آئینی اداروں عدلیہ اور افواج کیخلاف کسی بھی قسم کا آن لائن غیر قانونی موادقابل سزاجرم تصورہوگا،لوگوں کو کسی جرم کیلئے اکسانا:فیک نیوز:جعلی، جھوٹی رپورٹس،غیر شائستہ، غیر اخلاقی اور توہین عدالت کا مواد بھی غیر قانونی سمجھاجائے گا،ایسی تنظیمیںیاشخصیات جن پرریاست نے پابندی لگائی ہواُن کے بیانات سوشل میڈیا پر اپلوڈ نہیںکیے جا سکیں گے،وفاقی حکومت قومی سائبر کرائم تحقیقاتی ایجنسی قائم کرے گی،پیکا ترمیمی بل کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہو گا جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کیے جائیں گے۔

کسی بھی اہم معاملے کوحالات وواقعات اور نوعیت کے مطابق حقائق کی روشنی میں سیدھے الفاظ میں عوام الناس کے سامنے پیش کرناخبرکہلاتاہے،خبردینے والے کوحالات وواقعات کوبدلنے یاتوڑمروڑکرپیش کرنے یاپھرایسے واقعات کوخبربناناجن کاکہیں وجودنہ ہو کاحق نہیں،خبرکے مواد کی اہمیت اور حقیقت پسندی کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے، جب خبر کا مواد کسی سکیورٹی،معاشرتی یا اقتصادی مسئلے پر مبنی ہوتا ہے تواس کی اہمیت اوربھی بڑھ جاتی ہے، معلومات درست اور معتبر ذرائع سے حاصل کی جائیں توخبرسچی اورحقائق کے عین مطابق ہوتی ہے۔

بے لگام سوشل میڈیاپرفیک نیوز،بداخلاقی،بدمذہبی وبدعقیدہ موادکی روک تھام موجودہ دورمیں بڑامشکل چیلنج ہے،ملکی قانون سازی اورسخت ترین کارروائیوں کے باوجوداس مسئلے کے حل کیلئے عالمی قوانین کاسامناکرناپڑے گا،ترقی یافتہ دنیا سوشل میڈیاپلیٹ فارمز کواظہاررائے کی آزادی کاذریعہ سمجھتی ہے جودرست بھی ہے،لامحدودآزادی اظہاررائے کی وجہ سے سوشل میڈیاکابہت غلط استعمال ہورہاہے ،اظہاررائے کی آزادی کی حدودکاتعین کرنے کی نہ صرف پاکستان کوضرورت ہے بلکہ بے لگام سوشل میڈیادنیاکے تمام ممالک کیلئے سردردبن چکاہے۔

فیک نیوز کا معاملہ دورجدید میں بہت اہمیت اختیار کر چکا ہے، فیک،جعلی، جھوٹی خبریں نہ صرف معاشرتی زندگی پر منفی اثر ڈالتی ہیں بلکہ عوامی شعور کو بھی گمراہ کرتی ہیں یہاں تک ممالک ،مذاہب اورلوگوں کے درمیان جنگوں کی وجہ بنتی ہیں،فیک نیوز نہایت اہم مسئلہ ہے جو ہمارے ریاستی معاشرتی اور ثقافتی ڈھانچے پر انتہائی منفی اورگہرے اثرات مرتب کر رہا ہے،دورجدید میںتیزترین انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بدولت غلط اور گمراہ کن معلومات کو بہت تیزی سے پھیلنے کا موقع مل گیا ہے، فیک نیوز کے پھیلاؤ کو روکنا نہ صرف حکومت یا صحافت کی ذمہ داری ہے بلکہ مذہبی قیادت اوراساتذہ کے ساتھ ہر شہری کی بھی ذمہ داری ہے۔

صحافتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ معلومات کی تصدیق کے بعد ہی انہیں عوام تک پہنچائیں،خبریں تیار کرتے وقت صحافیوں کو ہمیشہ متوازن، مستند،تصدیق شدہ درست معلومات پر انحصار کرنا چاہیے،ملک کے اندررجسٹرڈپرنٹ اورالیکٹرونکس میڈیایہ ذمہ داری احسن طریقے سے سرانجام دے رہاہے ، سوشل میڈیاکے ذریعے پھیلائی جانی والی جعلی ،من گھڑت خبروں اور دیگرغیرقانونی موادکی روک تھام کیلئے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیابھرکی حکومتوں کو قانون سازی کر نی چاہیے تاہم اس بات کاخیال رکھنابے حدضروری ہے کہ بنائے جانے والے قوانین کاغلط استعمال نہ ہوسکے۔

فیک نیوز کی روک تھام ایک مشترکہ ذمہ داری ہے جو حکومت، میڈیا، سوشل میڈیا کمپنیوں، تعلیمی اداروں، معاشرے ،خاص طورپرسوشل میڈیااستعمال کرنے والے ہرفرد پر عائد ہوتی ہے، جب تک ہم اس مسئلے کی شدت کو سمجھ کر اس کے حل کے لیے اجتماعی طور پر کوشش نہیں کرتے، تب تک اس کے منفی اثرات بڑھتے رہیں گے، فیک نیوز کیخلاف لڑنا صرف اس کے پھیلاؤ کو روکنے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ہماری معاشرتی ہم آہنگی، سچائی کی اہمیت اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے بھی ضروری ہے۔

جہاں حکومت پاکستان جھوٹی خبر پھیلانے والوں،اسلام مخالف،پاکستان مخالف،آئینی اداروں عدلیہ اور افواج کیخلاف کسی بھی قسم کے آن لائن غیر قانونی مواد،لوگوں کو کسی جرم کیلئے اکسانے پر3سال قید یا20لاکھ تک جرمانہ عائد کرنے کیلئے قانون سازی کررہی ہے وہیں سوشل میڈیااستعمال کرنے والے ہرشہری کی بنیادی تربیت کیلئے اقدامات کرنابھی اشدضروری ہے،ہر شخص کو اپنی ذاتی حیثیت میں فیک نیوز اوردیگرغیرقانونی مواد کو روکنے کے لیے آگاہ ہوناچاہیے۔