انسانی اسمگلنگ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیاکودرپیش مسائل میں اہم ترین ،سنگین اور پیچیدہ مسئلہ ہے ،بے رحم انسانی اسمگلرزاپنے مفادات کے حصول کیلئے سادہ لوح انسانوں کے ساتھ بھیڑبکریوں اورکیڑوں مکوڑوں سے بھی بدترسلوک کرتے ہیں.
انسانی اسمگلنگ عالمی جرم ہے جو دنیا بھر میں مختلف صورتوں میں وقوع پذیر ہوتا ہے، اس سے متاثر ہونے والے افراد شدید مالی، ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں،انسانی اسمگلنگ کا مقصد اکثر جسمانی مشقت،جنسی استحصال،غلامی،جبری مشقت اور تجارت کے لیے ہوتا ہے جبکہ کئی بار انسانی اعضاء کی خریدوفروخت جیسے سنگین جرائم کی خبریں بھی سامنے آچکی ہیں بہترمستقبل کے خواب سجائے اپناگھراورملک چھوڑنے والے افراد کو جبری جسمانی تعلقات کے لیے مجبور کیا جاتا ہے، کھیتوں میں کام، گھریلو ملازمت، اور تعمیراتی منصوبوں میں مشقت اور بھیک مانگنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔
تعلیم اورشعورکی کمی،ناتجربہ کاری،شدیدمالی مشکلات،روزگارکی کمی ،جلدی ترقی کی کوشش یعنی شارٹ کٹ اوراکثراردگردکے ماحول کی نمودونمائش سے متاثرہوکربیرون ملک جانے کی خواہش کے سبب لوگ انسانی سمگلرزکے جھانسے میں آجاتے ہیں۔
حکومتوں کو انسانی اسمگلنگ کے خلاف سخت قوانین بنانے چاہیے جودرندہ صفت انسانی اسمگلرز کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ متاثرین کو انصاف فراہم کریں،عوامی سطح پر کو انسانی اسمگلنگ کے خطرات سے آگاہی ضروری ہے، تعلیمی اداروں، میڈیا،غیر سرکاری تنظیموں اورمذہبی قیادت کو آگاہی مہم چلانی چاہیے تاکہ لوگ انسانی اسمگلنگ جیسے سنگین جرم کے بارے میں آگاہ ہوں اور اس کے شکار نہ بنیں۔
انسانی اسمگلنگ ایک عالمی مسئلہ ہے اس لیے ممالک کا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا ضروری ہے،انٹرپول،یورپی یونین اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے درمیان مضبوط رابطے اورمعلومات کے تبادلے کاتیزترین نظام قائم کیاجاناچاہیے تاکہ اسمگلرز کے نیٹ ورک کو ختم کیا جا سکے۔
سکیورٹی اداروں اور عدلیہ کو انسانی اسمگلنگ کے بارے میں خصوصی تربیت دی جانی چاہیے تاکہ وہ اس جرم کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں اور متاثرین کی مدد کر سکیں،ملکی سطح پرقانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان معلومات کے تبادلے کیلئے قانون سازی ضروری ہے تاکہ اسمگلروں کو پکڑنے میں مدد مل سکے، حکومتی سطح پرمعاشی استحکام،بہتراوربامقصدتعلیم اورپیشہ ورانہ تربیت کو فروغ دینا انسانی سمگلنگ کی روک تھام میں مددگارثابت ہوگا۔
انسانی اسمگلنگ سنگین عالمی مسئلہ ہے جس کے اثرات بہت گہرے اور تکلیف دہ ہیں، اس کی روک تھام کے لیے تمام متعلقہ فریقوں کو مل کر کام کرنا ہوگا، حکومتوں،سیاسی،مذہبی،سرکاری و غیر سرکاری تنظیموںاور عوام کو اس کے خلاف جنگ میں حصہ لینا ہوگا ۔
اس سلسلے میں حکومت پاکستان کے سنجیدہ اقدامات دیکھنے میں آرہے ہیں جویقیناانسانی اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے کارگرثابت ہونگے،اطلاعات کے مطابق ا نسانی اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے20 سال بعد ایف آئی اے ہیڈکوارٹر سے ایڈوائزری جاری کی گئی ہے،ایڈوائزری کے تحت 15 ممالک بشمول پاکستان اور آزاد کشمیر کے 9 شہر اور 2 غیر ملکی ایئر لائنز کے مسافروں پر کڑی نگرانی کی ہدایات جاری کی گئی ہے،9 شہروں جن میں گوجرانوالہ، جہلم، ٹوبہ ٹیک سنگھ منڈی بہاء الدین،گجرات، سیالکوٹ، حافظ آباد، شیخوپورہ اور بھمبر شامل ہیں،جاری ایڈوائزری میں پہلی بار بیرون ملک کے15 سے40 سال عمر کے مسافروں پر نگرانی سخت کرنے کی ہدایت کی گئی ہیں۔
سعودیہ،آذربائیجان،کینیا،روس،مصر،ایتھوپیااورسینگال جانے والے مسافروں کی چھان بین کاحکم بھی ایڈوائزری میں شامل ہے،موریطانیہ، عراق،لیبیا، ایران، ترکیہ، قطر، کویت اور کرغزستان جانے والے مسافروں کی پروفائلنگ کاحکم بھی سامنے آیا ہے،رپورٹ کے مطابق یہ ایڈوائزری جولائی تا دسمبر آئی بی ایم ایس کے ڈیٹابیس کے تجزیے کی بنیادپر تیار کی گئی ،ایف آئی اے اجلاس میں ملکوں کے وزٹ، سیاحت، مذہبی یا تعلیمی ویزوں پر مسافروں کی نقل و حرکت کا بھی جائزہ لیا گیا،حکام کا کہنا ہے کہ مسافرں کے ریٹرن ٹکٹس، ہوٹل بکنگ سمیت تمام دستاویزات کی مکمل چھان بین کی جائے، وزٹ یا سیاحتی ویزوں پر خصوصی توجہ کے ساتھ دستاویز کی چھان بین کریں،مشکوک مسافروں اور ان کے سفری مقصد اور مالی انتظامات کیلئے انٹرویو کریں، مشکوک مسافروں کا تفصیلی ریکارڈ رکھیں، کسی بھی بے قائدگی پرفوری ایکشن یقینی بنایاجائے۔
پاکستان کی حکومت انسانی اسمگلنگ کیخلاف تیز،سنجیدہ اورسخت اقدامات اُٹھارہی ہے امید کی جاسکتی ہے کہ جاری ایڈوائزری پرسختی سے عمل درآمدکیاجائے گااوربوقت ضرورت مزیداقدامات بھی اُٹھائے جائیں توپاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے ساتھ دیگرجرائم کی روک تھام کیلئے بھی مددملے گی۔