بچوں میں نفرت پیدا مت کیجئیے!

’پھوپھو کے گھر جا کر زیادہ دیرنہیں رکنا وہ تو جب بھی آتی ہیں جلدی چلی جاتی ہیں اور ہمارے لئے کچھ لے کر بھی نہیں آتیں اس کے مقابلے میں آپ کی خالہ کتنی اچھی ہیں ہم بے شک ان کے گھر کم کم جاتے ہیں لیکن وہ فون پر بھی آپ کی خیریت پوچھتی ہیں ، گفٹس بھی لاتی ہیں جب کہ آپ کی دادی اور پھوپھو کی آپ کی ماما سے کبھی نہیں بنی ۔ ‘‘

اگر کوئی بچہ اپنے ددھیال سے خفا ہوتا ہے یا ان رشتوں کے قریب نہیں جانا چاہتا تو اس میں قصور بچوں کا نہیں بلکہ ان کے والدین کا ہوتا ہے ۔ پانچ سال تک کی عمر تک بچہ جو باتیں گھر سے سیکھتا ہے وہ ساری زندگی کے لئے اس کے ذہن پر نقش ہو جاتی ہیں کیونکہ بچے کا ذہن ایک خالی سلیٹ کی مانند ہوتا ہے اس پر جو بھی تحریر کر دیا جاتا ہے وہ ہمیشہ کے لئے اس کے ذہن و دل پر نقش ہو جاتا ہے۔

ددھیال کے برا ہونے کے اس روایتی تصور کو بڑھاوا دینے میں سوشل میڈیا کا بھی ہاتھ ہے ، مذاق مذاق میں کئی پیج پھوپھو کی چالاکیوں کے عنوان سے بنا دیئے جاتے ہیں جن کا مقصد وقتی طور پر تفریح کا حصول ہوتا ہے ، زیادہ وویوز حاصل کرنا ، ویڈیوز کو وائرل کرنا اور زیادہ سے زیادہ پیسے کمانا ہوتا ہے ۔ لیکن اس سے جو اخلاقی برائیاں پیدا ہو رہی ہیں ان کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا ۔اس لئے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ذہنوں میں جو نفرت کے بیج بو دئیے جاتے ہیں وہ وقت گذرنے کے ساتھ پھلتے پھولتے ہیں اور ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

رشتہ کوئی بھی اچھا یا برا نہیں ہوتا بلکہ ہمارا ان کے ساتھ تجربہ اچھا یا ناخوشگوار ہو سکتا ہے ، اس میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ بڑوں کے درمیان اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن بچوں کو اس آگ کا ایندھن بنانا کسی طور پر بھی جائز نہیں ہوتا۔