قبلۂ اوّل کے محافظ

معاہدے کا اصول ہی یہ ہوتاہے کہ معاہدہ ہمیشہ دو طاقتوں کے درمیان ہوتاہے ۔کبھی یہ دیکھنے میں نہیں آیا کہ کسی کمزور سے کوئی طاقتورمعاہدہ کرنے کےلیے معاہدے کی میز پر آیا ہو ۔

جنگ کے آغاز میں نتن یاہو نے کہا تھا کہ حماس کو ختم کردیا جائے گا پھر جنگی جنون میں مبتلا اس شخص نے کہا کہ حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے ۔دہشت گردوں سے کوئی مذاکرات نہیں ہونگے پندرہ ماہ کی اس جنگ نے نیتن یاہوں کے جنگی جنون کو سرسے ہی اتار دیا ہے اب اس نے کہا کہ ہم حماس کی طرف سے مذاکرات کا انتظار کررہے ہیں ۔اس مقابلے نے یہ اسرائیل پر ثابت کردیا ہے کہ کل تک جسے تم کچھ نہیں سمجھ رہے تھے وہ دہشت گردوں کا ٹولہ نہیں بلکہ ایک طاقت ہیں مزاحمت کی علامت ہیں جن کو عوام کی مکمل حمایت حاصل ہے ۔

حماس نہ صرف ایک مسلح جدوجہد ہے یہ ایک جمہوری جدوجہد ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حماس ایک کلچر ہے ایک طرز زندگی ہے اور یہ ہر دم رواں دواں ہے یہ کسی صورت باطل کے آگے سر نگوں ہونے کو تیار نہیں ہے یہ شہادتوں کا جام پی پی کر جواں ہوتی جارہی ہے یہ شیخ یاسین سے شروع ہوتی ہے تو یحیٰ سنوار اور ہزاروں جانباز شہدا ء کا قافلہ ہے جو رواں دواں ہے ۔ اس کا سفر جاری و ساری ہے جو راستے کی ہر چٹان کو خش و خاشاک کی طرح بہاکر لے جارہی ہے۔

پوری غزہ کی عوام اس کلچر کو اپنا چکی ہے اس کلچر نے ہر گھر میں سرفروش پیدا کردئیے ہیں ۔بے شک یہ عظیم کامیابی اے اہل غزہ آپ کو خدا نے عطا کی ہے ۔ تاریخ کے طالب علم جب تاریخ میں آپ کی عزیمت کی داستان پڑھیں گے تو ان کو یہ بات نظر آئے گی کہ مزاحمت ہمیشہ کامیابی سے ہمکنا ر ہوتی ہے اور ٹیکنالوجی کو شکست دیتی ہے مگر ان کو یہ بھی افسوس ناک داستان دنیا بھر کے غیر مسلم ممالک کی حکومتوں کی ملے گی کہ وہاں تو حکومت اسرائیل کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی تھی اور اسکے برعکس عوام سراپا احتجاج تھی اس سے بڑی افسوس ناک صورتحال مسلم ممالک کے حکمرانوں اور افواج کی ملے گی جو کسی نہ کسی طرح اپنا کندھا اسرائیل کو پیش کررہے تھے ہر ایک امریکہ اور اسرائیل کو راضی کرنے کے چکّر میں تھا ۔

حماس کی جدوجہد فوج کے مقابلے میں خالص عوام کی جدوجہد ہے حماس کی جدوجہد نے عالمی ضمیر کو تو جگا دیا مگر افسوس صد افسوس مسلمان ممالک کی حکومتوں اور مسلح افواج کو اب تک جگا نہیں سکی ہے۔ایک بڑی اہم تاریخ رقم ہورہی ہے، جس میں غیر مسلم حکمران ہرطرح سے اسرائیل کی مدد کررہے ہیں مگر ان کی عوام ان کی اس حرکت پر سراپا احتجاج ہیں عالمی ضمیر اس ظلم کی نفی کررہاہے دوسری طرف مسلم حکمرانوں اور افواج کی صورتحال بھی افسوس ناک ہے یہ ہرطرح سے امریکہ اور اسرائیل کو اپنا کندھا پیش کررہے ہیں ۔

ہمار ے وطن عزیز کی صورتحال بھی اس سے کم نہیں ہے حماس مٹھی بھر سرفروشوں کی جماعت اپنے ہزاروں قیدیوں کو چھڑا سکتی ہے مگر ایٹم بم ،غزنوی ،بابر اور غوری کے ہوتے ہوئے ہم ڈاکٹر عافیہ کو چھڑانے میں ناکام نظر آتے ہیں ۔کیونکہ جس کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرنے کے ہزاروں ڈالر وصول کئے گئے ہوں اس کو واپس مانگنے کی ہمت کہا ں سے آئے گی ؟۔