اقتدار کا نشہ

امریکہ میں جلد اقتدار کی دوڑ کا شہنشاہ سر پر تاج سجانے والا ہے ، کرسئ صدارت کا دورانیہ چار سال کا ہوتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے جیسے دنیا پر ہمیشہ راج کرنے کا اجازت نامہ مل گیا ہے ، بڑے بڑے بلندو بانگ دعوے بھی کئے جاتے ہیں اور بے لگام قانونی ضابطے بھی تشکیل دیئے جاتے ہیں ۔

پچھلے 46 ویں امریکن صدر نے اپنے 4 سالہ دور اقتدار میں بہت سارے قانونی ضابطوں کے ساتھ انسانی فطرت کے خلاف جنگ بھی شروع کی اور انسانی مساوات کے نام پر اتنے آگے چلے گئے کہ ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت دے دی، ہر بچے کو اختیار دیا گیا کہ والدین اس کی جنس نہ بتائیں وہ خود بالغ ہونے پرچناؤ کرے گا کہ ہ لڑکا رہنا چاہتا ہے یا لڑکی، فطرت انسانی مسخ کرنے کے سارے حربے انسانیت کے مسائل حل کرنے کے نام پر کئے گئے تا کہ لوگ انہیں ہی اپنا مسیحا اور نجات دہندہ سمجھ لیں ۔

یہ توایک مثال ہے ورنہ کئی اقدامات ہیں جو اس زعم میں کئے گئے یا کئے جاتے ہیں کہ جیسے ساری دنیا ان کی اختیار میں آگئی ہے اور یہ خدا بن گئے ہیں۔

قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجاکر نقارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

اور ہوا یہ کہ 4 سال تیزی سے گزر گئے اور یہی صدر اپنی ہی جماعت میں صدارتی امیدوار کے طور پر منتخب نہ ہوسکا۔ اور اقتدار کا سورج جلد ہی اپنی آب و تاب کے ساتھ غروب ہو گیا اب ایک نیا سورج طلوع ہونے کی تیاریاں کررہا ہے اور ہوگا یہ کہ

کیا مسند تکیہ ملک مکاں کیا کرسی چوکی تخت چھپر
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

اقتدار کا نشہ ہر حکمراں کو اندھا کردیتا ہے ،پچھلوں سے بڑھ کر،اور اگلوں سے آگے نکل جانے کی ہوس میں ، سوائے اپنی خواہشات نفس کو پورا کرنے کے ان کے آگے کوئی اور مقصد باقی نہیں رہتا ، ان تمام شیطانی چالوں سے شاید ہی کسی حکمران کے لئے بچنا آسان ہوتا ہو سوائے ان کے جو اقتدار حاصل کرتے ہیں تو اس حال میں کہ ان کے سر جھکے ہوئے ہوتے ہیں ، عام معافی اور امان کا اعلان بھی ہوتا ہے، اور اپنی اس حکمرانی کو وہ دو دھاری تلوار سمجھتے ہیں، مگر یہ بڑائی کے گھمنڈ میں اترانے والے اس کو کیا سمجھیں گے کہ ہر عروج کو زوال ہے اور ہر آغاز کا اختتام ہے ۔

کچھ کام نہ آوے گا تیرے، یہ لعل زمرد سیم و زر
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا