پاکستانی مصنوعات

جنوری کی شام اور سردی کی لہر میں نگہت و عالیہ گرما گرم چائے اور سموسوں سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ چودہ سالہ احمد نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے نگہت سے سوال کیا

“امی ہم اس ویک اینڈ ایکسپو سینٹر چلیں”؟

“کیوں بھئی کیا ہے ایکسپو میں”نگہت نے پلٹ کر سوال کردیا

“امی 18..19جنوری ایکسپو میں “میرا برانڈ پاکستان” نمائش لگ رہی ہے ۔جس میں ہر طرح کی پاکستانی مصنوعات موجود ہوں گی آپ بہت سی چیزوں کے لیے پریشان ہوتی ہیں نا کہ پاکستانی نہیں مل رہی ہیں وہاں آپ کو سب کچھ مل جائے گا۔”احمد

ارے یہ تو بڑی اچھی خبر سنائی تم نے۔۔۔۔نگہت نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا،

لیکن پاکستانی مصنوعات کا وہ معیار نہیں۔۔۔۔۔۔احمد کی پھپھو عالیہ نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا

ایسی بات نہیں بعض چیزیں تو پاکستان میں بھی اعلیٰ معیار کی بن رہی ہیں۔اور ویسے بھی عالیہ اپنی چیز اپنی ہوتی ہے ۔ہم جب تک بیرونی مصنوعات پر انحصار کریں گے اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوسکیں گے۔پاکستانی مصنوعات استعمال کرنے سے زرمبادلہ بچے گا جس سے ملک کی معیشت مضبوط ہوگی اور یہ بھی سوچنا چاہیے کہ زیادہ تر بیرونی کمپنیز اسلام دشمنوں کی ہی ہیں جو ہمارے پیسے سے ہمارے فلسطین بھائیوں کا خون بہاتے ہیں۔ معیار اور قیمت پر تو سمجھوتا کیا جاسکتا ہے لیکن خون پر نہیں۔۔۔نگہت نے کہا

ہاں بھابھی آپ درست فرما رہی ہیں لیکن تاجروں کو مصنوعات کے معیار پر بھی توجہ دینی چاہیے اور قیمتیں بھی مناسب ہوں تاکہ عوام کا رجحان بڑھے۔عالیہ نے سوال بھری نگاہوں سے کہا

ویسے تو پاکستانی مصنوعات کی قیمتیں باہر کی مصنوعات سے کم ہی ہوتی ہیں ۔بے شک تاجربرادری کو مصنوعات بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کے ساتھ قیمتوں کو بھی مناسب رکھنا چاہیے تاکہ عوام آسانی سے خرید سکیں اور اپنے ملازمین کو سہولیات بھی دینی چاہیے ہیں۔لیکن عوام کی ذمہ داری ہے کہ پاکستانی مصنوعات کو ہی ہر صورت ترجیح دیں۔ہر ایک کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔” نگہت نے عالیہ کو سمجھاتے ہوئے کہا

پھپھو ہماری ٹیچر کہہ رہی تھیں کہ میرا برانڈ پاکستان کی تمام آمدنی فلسطین فنڈ میں دی جائے گی ۔احمد نے کہا

واہ زبردست! میں بھی کوشش تو کرتی تھی لیکن اب تہیہ کرتی ہوں صرف اور صرف made in pakistan۔

I love Pakistan
My brand Pakistan

پاکستان زندہ باد
فلسطین زندہ باد

اور پھراحمد کے نعروں سے کمرہ گونج اٹھا