بے عمل موسمی مسلمان اور حکمران

ہمارے ملک میں ہر کام موسم کے اعتبار سے ہوتا ہے، چاہے ہم حکومت کی بات کریں یا عوام کی، ہم سیزن کے مطابق کام کر رہے ہوتے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں ہم سب سے اچھے مسلمان بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگ افطاریاں کھلاتے ہیں اور مساجد میں دن رات قرآن و نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ دین کی باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔جیسے ہی عید کا چاند نظر آتا ہے، ہم دوبارہ سب کچھ بھول کر عید کی خوشیوں میں مگن ہو جاتے ہیں، تمام اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر اپنی ذات کی نمود و نمائش اور دوسروں کے سامنے خود کو برتر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس میں حسد کا پہلو نمایاں ہوتا ہے، اور دوسروں کی غیبت کرتے ہیں۔

کبھی ہماری حکومت یا عوام نے رمضان آنے سے پہلے انسانیت کے بارے میں سوچا؟ ہر شخص اپنے ذاتی مفاد میں اشیاء کی بلیک مارکیٹنگ شروع کر دیتا ہے اور قیمتیں بڑھا دیتا ہے۔ حکومت چند لوگوں کے خلاف کارروائی کر کے اپنی کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتی ہے۔ہم نے آج تک یہ نہیں دیکھا کہ کسی بڑی مارکیٹ یا بڑی پراڈکٹ کے کارخانے پر کوئی چھاپہ مارا گیا ہو۔ اگر بالفرض محال کوئی بڑی کارروائی کی بھی جائے تو معمولی جرمانے کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ یہ بتایا جائے کہ صرف غریب دکاندار کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی بلکہ بڑے کاروباری افراد کے خلاف بھی کارروائی کی گئی ہے۔یہ دوغلا پن جب تک برقرار رہے گا، تب تک کاروبار میں بہتری نہ ہو گی نہ ملک ترقی کرے گا۔

ہمارے ملک میں جتنے دوغلے حکمران ہیں، اتنے ہی ہم سب ہیں جو وقت آنے پر دکھاوے کے لیے تبدیل ہو جاتے ہیں۔عید الاضحی کے موقع پر جانوروں کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھا دی جاتی ہیں اور جانوروں کی نمائش اس طرح کی جاتی ہے جس سے ہمیں منع کیا گیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم سب بات تو کرتے ہیں سادگی کی، لیکن چاہے عید الفطر ہو یا عید الاضحی، ہم نے اپنی جھوٹی شان و شوکت ضرور ایک دوسرے کو دکھانی ہے۔ حکومت ہمیشہ اپنی خانہ پوری کے طریقے سے یہ بتاتی ہے کہ حکومت کام کر رہی ہے۔معلوم نہیں کہ یہ کون سے کام ہیں جو صرف ٹی وی پر نظر آتے ہیں، مگر عوام چاہے رمضان ہوں یا عید الاضحی، ہمیشہ پریشان ہی نظر آتے ہیں۔

عید الاضحی کے ختم ہوتے ہی ہر انسان اپنے اپنے غموں میں پھر سے گم ہوجاتا ہے اور ایسے میں محرم کا مہینہ آ جاتا ہے، جس میں یہ موسمی مسلمان دوبارہ جاگ جاتے ہیں اور کربلا کے واقعہ کو مدنظر رکھتے ہوئے خود سبیلیں لگاتے ہیں اور نذر و نیاز کرتے ہیں۔جیسے ہی 10 محرم گزرتا ہے، یہ مسلمان اپنی سبیلیں بند کر دیتے ہیں اور کسی کو شربت تو دور، کسی کو ایک گلاس پانی بھی نہیں پلایا جاتا۔ یہ موسمی مسلمان ٹی وی پر جیسے رمضان کی ٹرانسمیشن دیکھتے ہیں، اسی طرح محرم میں بھی ٹی وی پر اسلام کے حوالے سے پروگرامز دیکھنا پسند کرتے ہیں، جو صرف دیکھنے کی حد تک ہوتا ہے۔ اس کا عملی زندگی پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ہم سب ٹی وی فنکاروں کی طرح اداکاری کرتے ہیں۔ اس کے بعد ربیع الاول کا سیزن شروع ہوتا ہے، جسے ہم بہت جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم مسلمان اس وقت کہلائیں گے جب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کے مطابق اپنی زندگیاں گزاریں گے۔

ہمیں اس موسمی دکھاوےسے نکل کر عملی اور حقیقی طور پر خود کو تبدیل کرنا چاہیے۔اگر ہم واقعی اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو قرآن و سنت کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ اعمال کی درستی کے لیے سب سے پہلا کام ہمیں اپنی نیتیں درست کرنا ہوں گی اور سچ کا ساتھ دیتے ہوئے ہمیشہ سچ بولنے کی عادت اپنانا ہوگی۔ منافقت کے اس دور میں اگر ہم نہ نکلے اور موسمی مسلمان کی حد تک محدود رہے تو تبدیلی ناممکن ہے۔ہم چین، جاپان، امریکا اور جرمنی کی باتیں کرتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ان کی ترقی کا راز کیا ہے۔ ان کی ترقی کا راز یہ ہے کہ ان کے عوام اور حکومتیں جھوٹ نہیں بولتیں، بلکہ ہمیشہ سچ اور انصاف کو ترجیح دیتی ہیں۔

ہماری تو سیاست سے لے کر عوام تک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔اگر انسان کو اوپر جانا ہے تو دوسرے کو نیچے دکھانے کے بجائے اپنی کارکردگی سے اوپر جائے۔ دوسرے کی برائی سامنے لا کر خود کو اچھا بنانے کی کوشش نہ کریں بلکہ اچھائی کو اپنی پہچان بنائیں۔ آج پاکستان کو بدلنے کے لیے ہمیں بچوں کی پرورش کے طریقے بدلنے ہوں گے، ان میں یہ سوچ ڈالنی ہوگی کہ ہم دنیا میں اچھے انسان بننے کے لیے آئے ہیں، نہ کہ پیسے کے غلام۔ ہماری پہچان انسانیت ہے اور چیزیں ہمارے لیے بنی ہیں، ہم چیزوں کے لیے نہیں۔حکومت میں آنے کا مطلب حکمرانی نہیں، بلکہ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔ ان کے آرام کے بارے میں سوچنا ہے۔ اپنی تکلیفوں کو بھلا کر عوام کی تکالیف کو دور کرنے پر توجہ مرکوز کرنی ہے۔ حکومت کا مطلب ہتھیار بنانا نہیں، بلکہ اچھے انسان بنانا ہے۔

ہماری حکومت پچھلے کئی برسوں سے سڑکیں بنا رہی ہے، کارخانے اور مشینیں بنا رہی ہے، مگر ان کو بناتے بناتے انہوں نے انسانیت کو ختم کر دیا اور انسانیت کے اوپر کبھی کام نہیں کیا۔آج بھی حکومت اپنی ذخائر کو بڑھانے کے لیے تاجروں کا ساتھ دے رہی ہے، مگر ان تاجروں کے منافع کو ان کے ملازمین کو کوئی فائدہ پہنچانے میں ناکام ہے۔ اس لیے آپ دیکھیں گے کہ پاکستان کے معاشی اشاریے بہتر ہونے کے باوجود عوام کا معیار زندگی مزید نیچے جا رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ کسی بھی تاجر یا حکومتی عہدیدار کو اپنی من مانی سے روکیں اور عوام کو سہولیات پہنچانے پر توجہ دی جائے۔جب تک حکومت عوام کے بارے میں نہیں سوچے گی، پاکستان کی معیشت کاغذوں میں بے شک بے تحاشہ ترقی کر لے، مگر عوام پستے ہوئے ہی نظر آئیں گے۔ جیسے ہندوستان آج دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بننے کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن اس کی عوام آج بھی نالوں اور گٹروں پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہندوستان کی ترقی کو اس کے عوام نہیں مانتے، کیونکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان بھی اپنے عوام کے بارے میں نہیں سوچتا اور موسمی تہوار مناتے مناتے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

دنیا میں اگر ہم مغرب کی ترقی دیکھتے ہیں تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے عوام کی آسائشات کے لیے کام کیا۔ چاہے وہ سائنس و ٹیکنالوجی ہو، قانون ہو یا کوئی بھی شعبہ، انہوں نے ہر جگہ اپنے عوام کو ترجیح دی۔ ہم نے قانون عوام کو غلام بنا کر ظلم ڈھانے اور بینکاری عوام کو سود میں جکڑنے کے لیے متعارف کروائی، جبکہ سائنس میں ان چیزوں پر توجہ رکھی، جس کی وجہ سے انسانوں کی زندگی پر کم بلکہ ٹیکنالوجی پر زیادہ اثرات نظر آئے، جس کی سب سے بڑی مثال ہم نے اسی سائنس و ٹیکنالوجی کی وجہ سے لوگوں سے روزگار چھین لیا۔سائنس و ٹیکنالوجی عوام کو بیروزگار بنانے کے لیے نہیں، بلکہ کام کو بہتر بنانے کے لیے ہے۔ تاہم، ہمارے ملک میں صرف نقل کی جاتی ہے، وہ بھی بغیر سوچے، جیسا کہ کہاوت ہے: “نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہے۔”ہمارے ملک میں ہر چیز کی نقل کی جاتی ہے، یہاں تک کہ معاشی پالیسیاں ہوں یا کسی بھی قسم کی پالیسی، ہم فوری طور پر اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں، مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر پالیسی میکر اپنے ملک و عوام کے مطابق پالیسیاں بناتے ہیں۔ ہمارے ملک میں دوسروں کی پالیسیاں اپنے ملک میں رائج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس سے عوام اور ملک کو فائدے کے بجائے نقصان ہوتا ہے، کیونکہ اگر ملک کو ترقی کرنی ہے تو باہر سے لوگوں کو امپورٹ کرنے کے بجائے مقامی قابل افراد کو موقع دیں تاکہ وہ ملک و عوام کے مطابق پالیسیاں بنائیں، جس سے نہ صرف انسان بلکہ ملک بھی ترقی کرے گا۔

حصہ
mm
ندیم مولوی ملک کے معروف ماہر معیشت ہیں،وہ ایم ایم سیکورٹی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹربھی ہیں،ندیم مولوی کراچی اسٹاک ایکسچینج کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔