میں تم سب کی شکایت اللہ تعالیٰ کے پاس جا کر کروں گی”۔ غزہ کی اس چھوٹی سی معصوم بچی کی آواز اکثر کانوں میں گونجتی ہے ،جس سے اسرائیلی فوج کی اندھا دھند بمباری نے اس کے والدین،اس کے بھائی بہن، اس کا گھر، اس کا بچپن سب کچھ چھین لیا تھا۔وہ اپنے جلے ہوئے گھر کے ملبے پر کھڑے ہو کر امت مسلمہ کو پکار رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ وہ بھی بہت جلد اپنے رب کے حضور پہنچ جائے گی لہذا جاتے جاتے وہ 57 اسلامی ممالک کے سربراہوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانا چاہ رہی تھی ۔….پیاری گڑیا! تمہارے دل سے نکلی آہ نے عرش الٰہی کو ہلا ڈالا، تمہاری پکار نے رب کی بارگاہ میں قبولیت کی سند پالی ۔ امریکہ جو کہ اسرا ئیل کا منہ بولا باپ ہے ،جس کی شہ پر غز ہ میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے آج خود اپنے گھر میں لگی آگ کے سامنے بے بس و مجبور نظر آرہا ہے۔
صاحبان عقل و دانش اس بات پر انگشت بدنداں ہیں کہ اپنے آپ کو سپر کہلانے والے ملک نے اپنے تمام تر وسائل، طاقت اور اختیار ہونے کے باوجود اس آگ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔اطلاعات کے مطابق 7جنوری 2025 کو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں لگنے والی آگ پر تاحال قابو نہ پایا جا سکا ہےکیونکہ تیز ہوائیں اور خشک موسم آگ کو ایسے بھڑکا رہی ہیں جیسے کسی تندور کو دہکایا جا رہا ہو۔ ہزاروں فائر فائٹرز ۔۔۔۔سینکڑوں کی تعداد میں واٹر ٹینکر ،سینکڑوں کی تعداد میں فائر انجن اور 60 طیارے مل کر بھی اس دہکتی ہوئی آگ پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ یہ امریکی تاریخ کی تباہ کن آگ ہے جس نے لاس اینجلس کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اب تک 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 13 ابھی بھی لاپتا ہیں، 150 بلین ڈالر سے اوپر کا نقصان ہو چکا ہے ،35 ہزار صارفین بجلی سے محروم ہیں، ڈیڑھ لاکھ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ مزید ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں کو وارننگ دے دی گئی ہے۔ خالی مکانوں میں جہاں آگ بجھا دی گئی ہے وہاں چوروں اور لٹیروں نے تیسری دنیا کے ممالک کی طرح لوٹ مار مچا دی ہے لہذا حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے انتظامیہ کوکرفیو نافذ کرنا پڑا ہے۔
ہیلی کاپٹر سے لی گئی تصویر میں غ ز ہ اور لاس اینجلس ایک جیسے نظر آرہے ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ غ ز ہ میں انسانوں نے اپنے ہی جیسے انسانوں پر بم گرا کر معصوم لوگوں کو شہید اور ان کے املاک کو ملیا میٹ کر دیا حتیٰ کہ ہسپتالوں میں بھی بم گرائے گئے تاکہ معصوم زخمیوں کا علاج بھی نہ ہو سکے یہ ظلم وبربریت وہاں ڈیڑھ سال سے جاری ہے جبکہ لاس اینجلس کو راکھ کا ڈھیر بننے میں صرف چند گھنٹے لگے کیونکہ غ ز ہ کے معصوم بچوں نے بارگاہ ایزدی کی عدالت میں اپنے کیس دائر کیے تھے جو بے نیاز ہے۔۔۔بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔۔۔ جہاں وہ اعلیٰ ترین منصف ہے وہاں وہ جبار اور قہاربھی ہے …وہ ظالموں کو ڈھیل ضرور دیتا ہے مگر جب پکڑنے پر آتا ہے تو اس کی پکڑ سے کوئی بچ نہیں سکتا ۔
ان بطش ربک لشدید
ترجمہ: بے شک تیرے رب کی پکڑ بڑی شدید ہے (سورہ بروج۔۔۔۔آیت ,12)
اجڑے ہوئے لاس اینجلس میں امیر ترین اداکاروں کے مہنگے ترین گھر تھے آج امریکی حکام ان کے بارے میں خود یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ” ایسا لگ رہا ہے جیسے یہاں ایٹم بم گرا دیا گیا ہو “جس اداکار نے غ ز ہ کے معصوم شہریوں پر بمباری کی خوشیاں منائی تھی اور کہا تھا “جلا دو ان سب کو ،برباد کر دو انہیں” آج خود اپنی بربادی پر نوحہ کرتا نظر آرہا ہے۔
57 مسلم ممالک کے سربراہوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہیں کہ مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ نہ دے کر وہ در پردہ ظالم اس رائیل اور اس کے منہ بولے باپ ام ریکہ کی مدد کر رہے ہیں۔کیا انھوں نے نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو فراموش کر دیا ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا “مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں جسم کے کسی بھی حصے میں اگر درد ہو تو پورا جسم اس درد کو محسوس کرتا ہے “. امت مسلمہ آخر کب ابنےفلس طینی بھائیوں ،بہنوں،بزرگوں اور خصوصاً بچوں کے درد کو محسوس کر کے ان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی ہوگی اور دامے، درمے، سخنے ان کی مدد کے لیے آگے آئے گی ۔اب بھی وقت ہےاگر حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے مسلم ممالک کے سربراہوں نے سخت فیصلے نہ کیے تو پھر انھیں سوچنا چاہئے کہ کیا انہوں نے رب کی پکڑ سے بچنے کی تیاری کر لی ہے ۔؟
آجاؤ گے حالات کی زد میں جو کسی دن
ہو جائے گا معلوم کہ خدا ہے کہ نہیں ہے