سیلون میں ہلکی سی خوشبو اور ہنسی مذاق کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ آج کا دن عام سا تھا، لیکن جب سائرہ سیلون میں داخل ہوئی، تو سب کچھ بدل گیا۔ وہ ایک تیز قدموں والی لڑکی تھی، جس کے چہرے پر ایک عجیب سا اضطراب تھا۔ جیسے ہی وہ سیلون کے دروازے کے قریب پہنچی، ایک لڑکی نے فوراً اسے خوش آمدید کہا۔
“کیا آپ کو کسی شادی یا پارٹی کے لیے تیار ہونا ہے؟” سیلون کے عملے میں سے نادیہ نے سوال کیا۔
سائرہ نے جلدی سے جواب دیا، “مجھے فوتگی والا میک اپ کروانا ہے، اسی حساب سے ایڈجسٹ کرنا۔”
نادیہ اور باقی عملے کے افراد کے ہاتھ ایک لمحے کے لیے رک گئے۔ سائرہ کی بات سن کر ان سب کو ایک دھچکا لگا، اور میں بھی، جو ایک کونے میں بیٹھ کر اپنی بیز لائن کے کام کو ختم کر رہی تھی، فوراً اس کی طرف متوجہ ہو گئی۔
“کسی کی موت ہوئی ہے؟” میں نے بے اختیار سوال کیا۔
“میرے شوہر کے رشتہ دار ہیں۔” سائرہ نے ایک سادہ سا جواب دیا اور پھر چپ چاپ کرسی پر بیٹھ گئی۔
میں! فریحہ، جو اس سیلون کی مالک اور سائرہ کی پرانی دوست تھی، سمجھ گئی کہ سائرہ اندر ہی اندر ایک غم کی لہر سے گزر رہی ہے، لیکن اس کا رویہ غیر معمولی طور پر سکون میں تھا۔ وہ اپنے میک اپ کی تفصیلات بتانے میں مصروف تھی۔
میک اپ شروع ہو چکا تھا، اور سائرہ کی آنکھوں میں ایک عجیب سی خاموشی تھی۔ پلکوں کی سیٹ ہو رہی تھی، ہونٹوں پر ہلکا سا رنگ چڑھایا جا رہا تھا، اور دوپٹہ بڑے اہتمام سے اس کے سر پر سجا دیا گیا۔ جب وہ تیار ہونے کے بعد سیلون سے باہر جانے لگی، میں نے پھر پوچھا، “آج چالیسواں ہے یا دسواں یا کوئی جمعرات؟”
سائرہ نے آہستہ سے جواب دیا، “نہیں، سسٹر۔ آج ہی موت ہوئی ہے، ہم جنازے پر جا رہے ہیں۔”
میرے اندر جیسے ایک طوفان آ گیا۔ سائرہ کا یہ جواب اتنا عجیب تھا کہ میرے دماغ کا ہر گوشہ ہل کر رہ گیا۔ میرے خیال میں ایسا منظر کسی کے بھی دل کو دہلا دینے کے لیے کافی تھا۔
“اللہ اکبر…” میں نے دل ہی دل میں کہا اور پھر فریحہ کی طرف رخ کیا جو اب تک سائرہ کو جا کر آرام سے سامان دے رہی تھی۔
“فریحہ، یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ کیسی بے حسی ہے؟” میں نے اس سے پوچھا۔
فریحہ نے ایک گہرا سانس لیا اور پھر کہا، “تم پہلی بار سن رہی ہو، سائرہ نہیں، ہم یہاں اکثر ایسی باتیں سنتے ہیں۔ بہت سی لڑکیاں اپنے دادا دادی، چاچا، چاچی یا رشتہ داروں کی موت پر میک اپ کرنے آتی ہیں۔ وہ یہی کہتی ہیں کہ فوراً تیار کرو، ہم جنازے پر جا رہے ہیں۔”
میرے لیے یہ سننا نہایت تکلیف دہ تھا۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کوئی شخص اپنے عزیز کی موت پر اس طرح کا میک اپ کروانے کا سوچے گا۔
“کیسا وقت آ گیا ہے، فریحہ؟” میں نے سر ہلایا، “ہمیں اس دنیا میں اتنی بے حسی اور غیر سنجیدگی کا شکار ہو جانا چاہیے؟ جب کوئی جان کسی عزیز سے جدا ہو رہی ہو، ہمیں دعاؤں کی بجائے میک اپ کی فکر ہو؟”
فریحہ خاموش رہی، جیسے وہ اس کی عادی ہو چکی ہو۔ لیکن میں یہ حقیقت ہضم نہیں کر سکی۔
چند لمحوں کے بعد، میں نے دل ہی دل میں اللہ سے دعا کی، “اللہ ہم سب کو ہدایت دے، آمین!”
میرے لیے یہ واقعہ ایک سبق بن چکا تھا کہ ہم کتنے بے حس ہو چکے ہیں۔ زندگی اور موت کی حقیقت کو سمجھنے کے بجائے، ہم دنیا کی عارضی خوبصورتی میں محصور ہیں۔
“اللہ پاک ہم سب کو صحیح راہ دکھائے، آمین۔”