سیاسی تہذیب

گذشتہ ڈیڑھ ہفتے سے امیر محترم جناب حافظ نعیم الرحمن کے بیانئیے پہ سوشل میڈیا پہ ایک طوفان برپا ہے، پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم ہمیشہ کی طرح گندی زبان،توہین آمیز بیانات،غیر تحقیق شدہ مواد کے ساتھ میدان میں برسر پیکار ہے۔۔۔۔۔۔۔یہ تربیت اور یہ طریقہ ہمیشہ سے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا طرہ امتیاز رہا ہے۔

سیاست پوری دنیا میں نظرئیے اور سوچ کے اختلاف کے ساتھ ایک مکمل تہذیب رہی ہے، جہاں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے لئے ہمیشہ سے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ مکمل ضابطہ اخلاق موجود ہے ۔۔۔۔۔۔ پاکستان میں بھی جمہوری دور ہو یا آمریت کا جابرانہ شکنجہ سیاسی تہذیب ہر دور میں اپنے اخلاقی وجود کا احساس دلاتی رہی ہے چاہے وہ یحییٰ خان ،ایوب خان ،جنرل ضیاءالحق  اور پرویز مشرف کا دور آمریت ہو یا پھر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کی مختصر و مکمل دور جمہوریت  ہم نے پاکستان میں ہمیشہ  زبان و بیان کی شائستگی اور ادب کو بیانئیے میں دیکھا ہے،الا ماشاءاللہ چند واقعات کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایسا نہیں ہے کہ کرپشن جب نہیں تھی اور اب ہے ،اختلافات تب نہیں تھے اب ہیں ۔بھلا ہو سوشل میڈیا کا اور اس سے بھی زیادہ بھلا ہو پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کا جس نے نہ صرف  اس تہذیب کی دھجیاں اڑا کے رکھ دی ہیں بلکہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور دیگر ٹیکنالوجی کی مدد سے سیاسی کلچر میں سے تہذیب کا جنازہ نکال کے رکھ دیا ہے ۔

وہ دن دور نہیں جب الطاف حسین کی طرح عمران خان کی شبیہ بھی کسی پتے یا پتھر پہ نظر آئے گی اور قوم یوتھ اس پہ اشک شوئی بھی کرے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ بہت دنوں پہلے کی بات نہیں ہے جب مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے ایسی ایسی اخلاق باختہ پوسٹس لگائی جاتی تھیں جسے کوئی بھی شریف النفس شخص دیکھنے کی ہمت نہیں کرسکتا ہے۔اس بدتمیزی کا شکار سب سے زیادہ مریم نواز بنیں، اسکے بعد مریم اورنگزیب اور عظمی بخاری۔۔۔۔ بلاول اور زرداری بھی اس شکنجے میں کسے جاچکے ہیں۔

جماعت اسلامی کے اوپر نازیبا الزامات لگانا تو خیر کوئی بات ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔اختلاف سیاست کی خوبصورتی ہے اور اسکا اظہار ایک فن ہے، ایک ایسا فن جس کی تعلیم پی ٹی آئی سے وابستہ کسی فرد کو کبھی بھی نہیں دی گئی۔ مذکورہ بالا خواتین کی ذاتی زندگیوں کے بارے میں جس طرح کی اخلاق باختہ گفتگو اور تصاویر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے شائع کی گئی ہیں اسکی کوئی مثال پاکستان کی تشہیری سیاست میں کہیں بھی اور کبھی بھی نہیں ملتی۔

عمران ریاض طرز کے صحافی پی ٹی آئی کا طرہ امتیاز ہیں جن کے منہ سے جھوٹ کا آب رواں ہر دم جاری رہتا ہے۔۔۔۔۔سب سے زیادہ افسوس تو ان نام نہاد سیاسی جنگجوؤں پہ ہے جو بیرون ملک مقیم ہیں اور جنکی معلومات کا سارا انحصار پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ہے ،جسکے ہر جھوٹ اور دشنام طرازی کو بڑی خوشی اور فخر سے ہر طرف نہ صرف پھیلاتے ہیں بلکہ اپنی طرف سے “خان” کے ساتھ حق وفاداری نبھاتے ہیں ۔

یہ کوئی بہت پرانی بات تو نہیں جب 2024 کے الیکشن کے نتائج کے سلسلے میں حافظ نعیم الرحمان صاحب  تن تنہا پی ٹی آئی کے مینڈیٹ کو نہ صرف تسلیم کررہے تھے بلکہ بڑی بے جگری سے انکی فتح کو سپورٹ بھی کیااور آج کے دن تک کرتے ہیں،ہمیشہ اپنے کارکنان سے خطاب میں حافظ صاحب نے انکو یہی تلقین کی ہے کہ پی ٹی آئی ورکرز آپکے پاکستانی بہن بھائی ہیں ،آپ بحث کا جواب یا تو دلیل سے دیں یا پھر خاموش رہیں ،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہاں حالات قطعاً مختلف ہیں،’’خان‘‘ کے بارے میں نکالا گیا ایک لفظ انہیں بھی ننھے بیل کی طرح میدان میں لا پھینکتا ہے، ایسے خاردار میدان میں جہاں روداری، تہذیب، تمیز، حیا، اخلاق اور شائستگی کا دور دور تک کوئی وجود نہیں، معلوم نہیں کہ بے ہودگی کا یہ طوفان کب اور کہاں جاکے تھمے گا ۔۔۔۔۔۔ لیکن ایک چیز تو واضع ہوگئی کہ وہ یہ تو جان  گئے ہیں کہ اب کے انکا مقابلہ اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھی ہوئی کسی چوسنی بردار جماعت سے نہیں ہے بلکہ ایک ایسی سیاسی قوت سے ہے جو اینٹ کا جواب پتھر سے بھی دینا جانتی ہے اور جھوٹوں کو انکے گھر کا راستہ دکھانا بھی جانتی ہے۔