آج پھر زندگی سے ایک سال کم ہو گیا ایک باب بند ہوا اور دوسرا باب کھل گیا۔ کتنے ہی ایسے کام ہیں جو ادھورے رہ گئے ہیں اور کتنی ایسی خواہشیں ہیں جو دم توڑ گئی ہیں۔ کب کس وقت بلاوا آجائے کوئی خبر نہیں دوسرے جہاں کی تیاری کی کوئی فکر نہیں۔ اور یوں ہی ایک دن میں سوچ رہی تھی کہ میں نے اپنے بچوں کو حقیقی زندگی کا مطلب کیسے بتانا ہے اور کیسے ان کو دین سے قریب کرتے ہوئے لائف کو بیلنس کرنا سکھانا ہے انکو کیا پڑھانا ہے کیا لکھانا ہے جب مجھے آتا ہی نہیں ہوگا،جہاں دنیا جہاں کے کام سیکھ لیے ہیں تو اس اہم ترین چیز کی طرف توجہ کیوں نہیں جس سے دین اور دنیا دونوں سنورے گی۔
آخر کیوں نہیں آج کل ماں باپ اس طرف رجحان کرتے ہیں جبکہ آخر کار انہوں نے ہی بچوں کو سکھانا ہوتا ہے ۔خاص طور پر بچے ماں سے زیادہ سیکھتے ہیں۔ اس جنریشن پر بہت محنت اور توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے دور کے مقابلے اج کے جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ان کو دین پر چلنے میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسی لیے ہم اپنے گھر میں ہی ایسے اقدامات کرنے چاہیے کہ جن سے ہماری آنے والی نسلیں اس دور میں بھی اپنے اصل سے، اپنے اسلام سے اور اپنے رب سے جڑی رہیں اور صرف ان کے لیے نہیں ہماری اپنی ذات کے لیے بھی یہ بہت ضروری ہے ۔ جب دعائیں آتی ہوں ،سورتیں آتی ہوں تو کہیں بھی بیٹھے آپ پڑھ لیتے ہیں۔
بے شک موبائل میں سب کچھ میسر ہے لیکن زبانی یاد کرنے میں اور پھر پڑھنے میں الگ ہی تاثیر ہے۔ اور اسی کام کے لیے میں نے ایک نوٹ بک کی تشکیل کی ہے ان نوٹس کےذریعے میں نے بہت دعائیں، سورتیں یاد کی ہیں ،جو سورت یا دعا یاد کرنی ہو اسے اس طرح سامنے لکھ کے لگا لیتی ہوں اور پھر سارا دن کام کرتے کرتے اس پر نظر پڑتی رہتی ہے بار بار پڑھنے سے یاد ہوجاتی ہیں۔
الحمداللہ ! مجھے جو کچھ بھی یاد ہے جو کچھ پڑھتی ہوں وہ اماں نے بچپن میں یاد کروایا تھا ،سونے سے پہلے وہ پڑھایا کرتی تھیں بچپن گزرا اس کے بعد اتنے مصروف ہوگئے کہ قرآن پاک تو پڑھ لیتے ہیں مگر اس طرف نہیں آتے۔
اسی لیے نئے سال کا عزم یہ ہے کہ ہمیں خود بھی قرآن سے ہر لحاظ سے جڑنا ہے تاکہ ہم رب کو راضی کر سکیں اور اپنی انے والی نسل کو بھی اسی راستے پر چلانا ہے۔ کیونکہ ماں کی گود ہی بچے کے لیے اس کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔