آجکل یوٹیوب،ٹک ٹاک اور انسٹا کا خمار لئے نوجوان لڑکے بالے یا پھر یہ کہوں تو ٹھیک رہے گا کہ ہر رنگ و نسل، عمر، جنس کا تعین کئے بغیرسوشل میڈیا کی دوڑ میں آگے نکلنے کی کوشش میں سرگرداں ہر طرح کی تفریح کے ساتھ”فیم اور نیم”نیز ارننگ گین بھی کررہے ہیں۔
اس کے برعکس”جناب”بی اے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرکے بھی کوئی خاطر خواہ نوکری ڈھونڈنے سے اب تک قاصر ہوں،
بہت سارے انفلینسرز، یوٹیوبرز اور”نقالوں سے ہوشیار”متعدد ماہرین کے مشوروں کے باوجود نہ ہی یوٹیوب چینل مونیٹائز کرواسکا اور نہ ہی میری کسی ٹک ٹاک ویڈیو نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کا شرف پایا….
نہ جانے یہ کون لوگ ہیں؟اللہ جانے کون سا لڈو کھا کر آئے ہیں.جو پچھتائےبغیر ہر بازی ہی جیت جاتے ہیں. کبھی کبھی ایسا گمان ہوتا ہے کہ شاید ایڈوانس دور جیسا کونٹینٹ نہیں بنا پارہا،یا میں کچھ کر نہیں سکتا؟؟
میں ٹھہرا جناب گھر کا سب سے بڑا بیٹا جس سے کبھی کچھ اوٹ پٹانگ ہو نہیں سکتا یا پھر اماں،ابا اور سب کی امیدوں اور سب کے لئے رول ماڈل بننے کی لائین میں لگانے والی اماں کے بقول”میرے جیسا سعادت مند بیٹا کسی کا نہیں” نے کچھ بھی اوکھا یا الگ کرنے کی کبھی ہمت ہی جتانے نہیں دی.
ابا کی لاشعور میں گھورتی آنکھوں نے بھی کبھی کچھ کرنے جوگا رکھا ہی نہیں…
شاید میرے پاس کوئی معقول جواب نہیں….
آج بھی روز کے معمول کے مطابق سرچنگ کرتے،کرتے اچانک نظر ایک انسٹیٹیوٹ کے ایپٹیٹیوٹ ٹیسٹ پر پڑی،فٹافٹ فارم فل کرکے پروسس مکمل کیا.ہر رنگ و نسل کے تفریق کو بالائے طاق رکھ کر مجھے اس انسٹیٹیوٹ میں داخلہ مل گیا…
سوچ حیران تھی اور دل پریشان…..
مطلوبہ کورس کی تکمیل کرکے بہترین کمپنی میں مناسب ملازمت ملنے پر دل ہواؤں میں اڑ رہا تھا.رنگ ہی رنگ میرے چاروں جانب بکھرے نظر آرہے تھے.مہنگائی کے بےقابو ہوتے جن کے سامنے مہینے بھر کی انتھک محنت کے بدلے ہر ماہ آتی ہوئی آمدنی کی پری اپنی شخصیت کی کشش دکھا کر اسے چراغ میں بند کرنے میں سرگرداں تھی. اور میں سوچ رہا تھا کہ ہر ادارہ و جماعت اسی طرح جدید سہولتوں سے آراستہ تعلیم و تربیت حاصل کرنے اور معاون ہونے کے ساتھ ساتھ آسان طریقے سے قابل بنا کر کئی بجھتے چولھوں اور قل پڑھتی آنتوں کے درد کا ساماں بن سکتے ہیں.
بدلتے حالات سے اماں، ابا کے چہرے کی خوشحالی میرے دل میں راحت بن کر اندر تک اتر رہی تھی…
کئی روز بعد علاقے کے بےروزگار محلے دار کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ بھی میری طرح داخلہ لے اور “بنو قابل” سے قابل بننے تک کا سفر مکمل کرکے دور جدید سے آراستہ طریقوں سےجھکتی کمر اور سسکتے ارمانوں کو حقیقت کا رنگ دکھانے میں آخر حرج ہی کیا ہے. آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر غربت و افلاس، بےروزگاری اور معاشرتی بدحالی سے خوشحالی کا سمندر پار کرنے میں کھڑی ہر رکاوٹ کو پس پشت ڈالکر آگے بڑھ کہ
تندیِ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھےاونچا اڑانے کے لئے
آج کل اماں بھی ہر دوسرے بندے سے فخریہ کہتی نظر آتی ہیں،”بنو قابل کا فارم بھرو اور قابل بنو”….