سال نو کا استقبال

21کیسویں صدی کا ربع حصہ اختتام کی طرف گامزن ہے اس صدی کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدی کہا جاتا ہے کیونکہ ایسی ایسی ہوشربا ایجادات اس کی شناخت بن چکی ہیں جس کا پچھلے زمانے کے لوگوں نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔

ہر گزرتے لمحے کے ساتھ زندگی کے ہر میدان میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ “ثبات صرف تغیر کو ہے زمانے میں “چونکہ زندگی کا ہر شعبہ ہی تبدیلی کی زیر اثر ہے لہذا لوگوں کے رہن سہن، نشست و برخاست ،رسم و رواج خوشی اور غمی منانے کے انداز میں بھی نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔

سال نو کا جشن ہو یا جشن آزادی ان کو منانے کے انداز بھی بدل گئے ہیں ۔زیادہ نہیں آج سے چند دہائیاں پہلے سال نو کا استقبال اس طرح نہیں ہوا کرتا تھا جیسا کہ اب ہوتا ہے۔ اس زمانے میں صرف ایک چینل پی ٹی وی ہوا کرتا تھا جو 12 بجے فرمان الٰہی اور قومی ترانے کے بعد بند ہو جایا کرتا تھا۔ سال نو پر ٹھیک رات کے12 بجے دعا ہوا کرتی تھی۔ ساری قوم ٹی وی کے سامنے بیٹھی ہاتھ اٹھائے بہتر مستقبل کے لیے دعائیں مانگا کرتی تھی ۔کہیں کہیں سال نو کے آغاز پر قرآن خوانی کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا ۔ اس کے بعد وقت نے انگڑائی لی ۔ ٹی وی چینلوں میں بھی اضافہ ہوا، لینڈ لائن کی جگہ موبائل فون آیا پھر اس میں بھی جدت ہوئی اورا سمارٹ فون متعارف ہوا ۔

اسی طرح جب ایک پیڑھی نے دوسری پیڑھی کی جگہ سنبھالی تو اخلاقی اور سماجی اقدار بھی بدلنے لگیں۔ لوگوں نے چیزوں کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی اپ گریڈ کر لیا ۔جب سے اسمارٹ فون ہاتھ میں آیا ہے ٹی وی کے آگے بھلا کون بیٹھتا ہے۔۔۔۔کون اب رات کے 12 بجے دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتا ہے۔۔۔۔۔ اب تو سال نو کا آغاز باضابطہ ساحل سمندر پر مخلوط محفلیں سجا کر کیا جاتا ہے، جگہ جگہ ہوائی فائرنگ ہوتی ہے ،آتش بازی کا دور چلتا ہے، موٹر سائیکل کے سائلنسر کھول کر نوجوان نسل وہ ہلڑ بازی مچاتی ہے کہ الامان الحفیظ ۔ان ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں بہت سے لوگ زخمی ہوتے ہیں اور بعض جان سے بھی چلے جاتے ہیں۔ پوش علاقوں کے تو کیا کہنے وہاں تو کلبوں اور ریسٹورنٹ میں “نیو ائیر نائٹ” میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی اور جشن کے نام پر سماجی اقدار کی جس طرح دھجیاں بکھیری جاتی ہیں وہ تو غیر مسلموں کو بھی شرمانے کے لئےکافی ہیں۔

حکومت وقت اگر ایسی تمام سرگرمیوں پر جو جشن کے نام پر معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنتی ہیں، پابندی عائد کر دے تو امید کی جا سکتی ہے کہ اس سیل رواں کے آگے کچھ تو بند باندھنے میں کامیاب ہو جائے گی ۔

اس کے ساتھ ساتھ والدین کی بھی یہ زمہ داری بنتی ہے کہ بچوں کے اندر شعور بیدار کریں کہ سال نو کا استقبال صرف جشن منا کے نہیں کرنا ۔۔۔۔بلکہ اپنی گزشتہ سال کی کارکردگی کا محاسبہ کرنا ہے اور جو کام گزشتہ سال ادھورے رہ گئےتھے انھیں آنے والے سال میں مکمل کرنےکا عہد کرنا ہے ۔۔،سال گزشتہ میں اگر کچھ غلطیاں سرزد ہو گئ تھیں تو سال نو میں ان کی تلافی کرنی ہے اور سب سے بڑھ کر رب کے حضور سجدہ ریز ہونا ہے جس نے ہمیں مزید مہلت عمل سے نوازا ۔۔۔ بچوں کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بشمول سیاست دان ،ملک کا نظام چلانے والے محکموں اور اداروں میں اگر یہ شعور بیدار ہو جائے تو قوی امید کی جا سکتی ہے کہ نیا سال ہمارے ملک کے لیے خوشیوں کا پیامبر ثابت ہوگا۔