سالِ نو مبارک

عیسویں سال 2024 اختتام پذیر ہوا۔ ہماری زندگی کے ایک قیمتی سال کے 12ماہ ،51ہفتے،365دن ،8760گھنٹے خاموشی سے گزر گئے۔ بلاشبہ وقت کو قید نہیں کیا جا سکتا اچھا ہو یا برا آخر گزر ہی جاتا ہے ۔ اور اب جب کہ قدم سال2025 ء کی دہلیز پار کررہے ہیں دل یہ چاہتا ہے کہ مایوسیوں کو دفن کر دیا جائے، خدا کرے کہ نیا سال میرے ملک اور یہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں روشنیاں بکھیر دے۔ اس پاک دھرتی پہ امن و محبت کا سورج یوں اپنی شعاعیں پھیلائے کہ ہر گھر روشن اور ہر دل آباد ہو جائے۔ خدا کرے یہ نیا سال ہمیں راس آجائے۔ ہم نے جیون کی بوند بوند سے خوشیاں کشید کرکے جینا ہے، کیونکہ زندگی تو ایک ہی بار ملتی ہے پھر اس کا کوئی ایک پل ،ایک لمحہ بھی بے جہت اور بے کار کیوں ہو۔

فضول بکھیڑوں ،لایعنی جھمیلوں ، بے مطلب باتوں ،بے تکی الجھنوں ، بے وجہ رنجشوں یا بے سبب اداسیوں میں گھر کر اسے بے توقیر و بے حرمت کیوں کیا جائے۔ یہ سو فیصد ہماری اکلوتی زندگی ہے تو پھر کوئی لمحہ بیزار، شکوہ کناں، بے فیض، بے بھروسہ، بے اعتبار کی نذر کیوں ہو۔ بلاشبہ خوشی کا تعلق محسوس کرنے سے ہے، بعض اوقات صبح صبح نرم نرم ہوا کا ایک جھونکا ،طلوع ہوتے سورج کی پہلی پہلی کرنیں ،درختوں پر چہچہاتی چڑیوں کی اٹھکیلیاں ،اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرتے چرند پرند ،اذان دیتے مرغے ،سڑک سے گزرتی گاڑی میں بجتے کسی صوفی کلام کے بول،کسی پرانے زمانے کے گانے کی دھن،اسکول کے لئے منہ بسورتے تیار ہونے والے معصوم بچے کا کوئی بے ساختہ جملہ ،ایک دم پرفیکٹ بن جانے والی چائے یا کافی کا پہلا گھونٹ ،اخبار میں اچانک نظر سے گزرنے والی کوئی اچھی خبر ،مارننگ شو میں اپنی پسندیدہ میزبان کی میزبانی میں پسندیدہ شخصیت کی ایک جھلک ،یادوں کے دریچوں سے یک دم لپکنے والی کوئی میٹھی یاد ، کسی ادیب کا کوئی جملہ ،اقتباس ،دلنشین قول یا پسندیدہ شاعر کا شعر بھی دن بھر کی خوشی و شادمانی ،سیرابی و شادابی کا سبب بن جاتا ہے، بات تو صرف محسوس کرنے کی ہے۔

یوں تو زندگی برف کی مانند پگھل رہی ہے اور دریائوں کی طرح تیزی سے گزر کر موت کے سمندر میں گر رہی ہے اور ساحل کی ریت کی طرح مٹھی سے پھسل رہی ہے۔ اس سال میں ہم نے اپنے بہت سے پیاروں کو کھودیا اور دنیا دار فانی میں ہمیں بھی ہمیشہ نہیں رہنا ۔ درحقیقت زندگی میں میسر یہ منٹ ، یہ گھنٹے ، یہ سال مہلت کے ہیں کہ ہم حاصل وقت کی قدر کرتے ہوئے اسے قیمتی بناتے ہیں یا محض غفلت و لاپرواہی میں گنوادیتے ہیں۔ وقت کی اہمیت اور قد و قیمت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی بہت سی آیات میں اس کی قسمیں کھائی ہیں۔ سورۃ ا لعصر کی آیت نمبر2 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ قسم ہے زمانے کی انسان بڑے خسارے میں ہے۔ دوسری جگہ سورۃ الضحیٰ کی آیت نمبر3 میں ہے’’ قسم ہے دن کی روشنی کی اور رات کی جبکہ وہ قرار پکڑے۔ اسی طرح سورۃ الفجر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی۔‘‘ بحیثیت مسلمان ہمیں حاصل وقت کو اپنی اصلاح کرنے اور دوسروں کی اصلاح کاذریعہ بننے اور نیکیاں کمانے میں صرف کرنا چاہیے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیںکہ دنیاوی زندگی ، آخرت کی کھیتی ہے۔ ہم آج جو بوئیں گے آخرت میں وہی کاٹیں گے۔ اگر ہم اپنی زندگی میں حاصل اس وقت کی قدر کرتے ہوئے اسے خیرو بھلائی کے بیج بونے میں صرف کریں گے تو کل روز قیامت ہمیں فلاح اور بھلائی کا ثمر ملے گا۔ جبکہ اس کے بر عکس اگر زندگی میں وقت کی قدر نہ کی جائے اور اسے غفلت ، سستی و کاہلی میں گزارتے ہوئے برائی و شر فتنہ و فساد کی نذر کر دیا جائے تو ہمارے لیے دونوں جہانوں میں خسارہ ہے۔ آج سائنس و ٹیکنالوجی نے جہاں ہمیں بے شمار کارآمد چیزیں دی ہیں وہیں وقت کے ضیاع کے بھی ایسے نوع بہ نوع آلات فراہم کئے ہیں کہ امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ ان کے غلط استعمال میں اپنا قیمتی وقت اس طرح ضائع کر رہا ہے جس طرح تیز دھوپ میں برف کی ڈھلی پگھل کر ضائع ہوتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وقت کا صحیح استعمال کیا جائے، اور ہر لمحہ سے بھر پور استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ وقت کا زیادہ ترحصہ عبادات و ذکر الٰہی میں مشغول رہ کر گزارا جائے، فارغ اوقات کو چغلی ، کینہ وبغض جیسی خرافات کی بجائے مثبت سوچ تلاوت قرآن کریم، تسبیحات ، ذکر واذکار ،درود شریف اور استغفاراور اچھی کتب کے مطالعہ میں صرف کیا جائے۔تاکہ نفس کی اصلاح ہو اور دونوں جہانوں کی خوشیاں، کامیابی اور خیر و برکت حاصل ہوسکے ۔ آخر میں ہم دعا کو ہیں کہ

نہ کوئی رنج کا لمحہ کسی کے پاس آئے
خدا کرے کہ نیا سال سب کو راس آئے