ثمینہ ! استاد محترم میں بہت پریشان ہوں بہت سے مسائل میں مبتلا ہوں میں یہ سب کچھ امی اور بابا سے بھی شیئر نہیں کرسکتی کہ وہ پریشان ہو جائیں گے مجھے لگتا ہے اگر یہی حالات رہے تو میں مر جاوں گی _
استاد محترم نے ثمینہ کی تمام بات تحمل سے سننے کے بعد کہا! پہلی بات تو بیٹا یہ کہ مرنا جینا اللہ کے اختیار میں ہے اگر مر گئی تو سیدھا جنت میں جاو گی دوسری بات یہ کہ آپکے آس پاس بہت سے لوگ آپ سے زیادہ تکلیف اور پریشانیوں میں مبتلا ہیں آپ کے پاس اللہ کی بہت سی دوسری نعمتیں تو ہیں انھیں دیکھو انکا احساس کرو جو لوگ بالکل خالی ہاتھ ہیں انہیں دیکھ کر تو تمہیں تمہاری تکلیفیں کم لگیں گی اوپر والوں پر نظر ڈالنے سے یقینا تمہیں اپنی محرومیوں کا احساس ہوگا جبکہ نیچے والوں کو دیکھ کر تم اللہ کی عطا کردہ بہت ساری نعمتوں پرشکر ادا کروگی۔
ثمینہ نے اپنے استاد محترم کی بات پر عمل کیا تو اسے تھوڑے ہی عرصے میں اپنے اندر نہ صرف اپنی تکلیف کم محسوس ہونے لگی بلکہ اللہ کا شکر ادا کیا کہ واقعی اسے رب کی بہت سی دوسری نعمتیں حاصل ہیں جن سے بہت سے لوگ محروم ہیں یہ سوچ اس کی کامیابی کی منزل کی سیڑھی ثابت ہوئی پھر وہ ایک نئے جذبے سے کامیابی کی طرف بڑھتی گئی۔
آج سے کافی سال پہلے ثمینہ نے اپنی یہ بات مجھ سے شیئر کی تو میں نے بھی اس قیمتی مشورے کو اپنی گراہ میں باندھ لیا بلکہ وقت ضرورت دوسروں تک بھی پہنچایا! بیشک آج ہر دوسرا بندہ پریشانی اور تکلیف سے گزر رہا ہے ہم اسے اس تکلیف سے اگر نکلنے میں مدد نہیں دے سکتے تو کم از کم مفید مشورہ یا کوئی اچھی بات انکے گوش گزار تو کر سکتے ہیں بعض اوقات میرے بچے مجھے کہتے ہیں کہ مما چھوڑیں آپ کیوں پریشان ہیں اور مشورہ دینے کی کیا ضرورت ہے لیکن میں انہیں بھی یہ کہتی ہوں کہ کوئی اچھی بات سن کر اگر سامنے والا فائدہ اٹھا رہا ہے تو یہ بھی ایک نیکی ہے۔
مثلا گزشتہ دنوں ایک محفل میں ایک خاتون مسلسل سب سے رو کر تزکرہ کر رہی تھی کہ اسکی بیٹی کے ساتھ اس کے سسرال والوں نے بہت زیادتی کی ہے اس کے ساتھ ظلم ہورہا ہے اب تو میں نے بھی کہا ہے کہ میں اسے واپس نہیں بھیجوں گی اس کی بات پر بہت سی خواتین اس کی ہاں میں ہاں ملا رہیں تھیں آخر مجھ سے نہ رہا گیامیں نے پوچھا آپکی بیٹی کے سسرال والے اسے کس طرح تکلیف پہچاتے ہیں کہنے لگی اسے کبھی اسکا شوہر میکے چھوڑنے نہیں آتا ساس کہتی ہے کہ اپنے گھر والوں سے کہو وہی لیکر جائیں اور وہی چھوڑ کر جائیں اب تو میں نے بھی بیٹی سے کہا ہے ہماری بھی ضد ہے اس مرتبہ اسکا شوہر ہی اسے لینے ائے ورنہ بیٹھی رہے کیا ہماری بیٹی کی کوئی عزت نہیں ہے، میں نے خاتون سے پوچھا کیا اس پر سسرال والے کوئی اور ظلم بھی کرتے ہیں تو پہلے تووہ خاموش ہو گئی پھر کہنے لگی اسی بات پر ہی گھر میں اکثر تکرار ہوتی رہتی ہے،تب میں نے ان خاتون کو کہا بہن اول تو یہ بڑا مسئلہ نہیں لڑکیوں کو سسرال میں بڑے مسائل سے گزرنا پڑتا ہے تب ہی جاکر وہ جگہ بنا پاتی ہیں اور آپکی بیٹی کے ساتھ الحمد للہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے لیکن پ لوگوں کی ضد کی وجہ سے یہ بڑا مسئلہ بن سکتا ہے اسکا گھر بھی ٹوٹ سکتا ہے لہزا اسے اس مرتبہ اسکے گھر چھوڑ آئیں اور آپس میں بیٹھ کر صلح مشورے سے اس معمولی مسئلہ کو حل کریں کیونکہ ہمارے آس پاس تو بہت سے لوگ اس سے زیادہ مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔
شکر خدا کا اس بات کا خاتون پر اثر ہوا اور وہ بیٹی کو سسرال چھوڑ آئی ، اس طرح اس بچی کا گھر ٹوٹنے سے بچ گیا یہ گرچہ ایک چھوٹی سی نیکی ہوسکتی ہے لیکن سامنے والے کو بڑی مشکل اور تکلیف سے بچا سکتی ہے آپ کسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتے لیکن مثبت انداز میں اسے صحیح اور مفید بات پہنچا سکتے ہیں جو یقینا اسکے کبھی نہ کبھی ضرور کام آسکتی ہے۔