محمد علی جناح قائد اعظم کیسے بنے؟

1857 کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کا ہندوستان میں اقتدار مکمل طور پر ختم ہو چکا تھا۔ انگریزوں نے چونکہ مسلمانوں سے اقتدار چھینا تھا اس لیے انہوں نے بغاوت کی ساری ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دی اور انہیں ہر طرح سے دبانے اور کمزور کرنے کی کوشش کی۔ انگریزوں نے انڈیا میں اپنی تجارت اور مصنوعات کو فروخت دینے کے لیے مسلمان ہنر مندوں کو گھر بٹھا دیا انہیں کام کرنے سے روک دیا گیا مسلمانوں کی زبان کو متروک کرکے انگریزی زبان کو فروغ دیا گیا فارسی زبان پڑھنے والوں کے لیے ملازمتوں کے دروازے بند کر دیے گئے یہاں تک کہ مثل مشہور ہو گئی کہ “پڑھو فارسی بیچو تیل” ۔ مسلمان پسماندہ سے پسماندہ ہوتے چلے گئے۔

ہندوؤں نےان حالات کا فائدہ اٹھایا انہوں نے انگریزی زبان سیکھ کر انگریزوں کا قرب حاصل کیا اور اپنی اس حکمت عملی کے ذریعے حکومت میں اثر و رسوخ حاصل کر لیا۔

ہندو تعداد میں مسلمانوں سے زیادہ تھے اس بنا پر وہ جان گئے تھے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد اقتدار ان کے ہاتھ آسکتا ہے انہوں نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ ملانا شروع کر دیا۔

مسلمان بھی انگریزوں سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے چنانچہ انہوں نے ہندوؤں کے ساتھ مل کر “ہندوستان چھوڑ دو” تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ہندو مسلم اتحاد میں جو مسلمان رہنما شامل تھے ان میں ایک نمایاں نام محمد علی جناح کا تھا جو پیشے کے اعتبار سے قانون دان تھے۔ ان کا شمار ہندوستان کے بڑے وکیلوں میں ہوتا تھا وہ ہندو مسلم اتحاد کے پرجوش حامی تھے اور ہندوستان کے عوام کے سیاسی حقوق کے علمبردار تھے مگر جلد ہی انہیں احساس ہو گیا کہ ہندو رہنماؤں کا مقصد صرف ہندو اقتدار کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔ انہیں مسلمانوں کے حقوق سے کوئی سروکار نہیں چنانچہ انہوں نے اپنا راستہ الگ کر لیا اور آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو گئے جو مسلمانوں کی سیاسی جماعت تھی اور ان کے سیاسی حقوق کے لیے کوشاں تھی۔

محمد علی جناح اور دیگر مسلمان زعماء یہ جان چکے تھے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ ایک علیحدہ اسلامی ریاست قائم کی جائے جہاں وہ دین اسلام کے مطابق زندگی گزار سکیں کیونکہ ہندو اور مسلمان دو بالکل علیحدہ قومیں ہیں جن کے افکار، نظریات، دین، مذہب اور رہن سہن کے طور طریقے اس قدر مختلف ہیں کہ یہ آپس میں مل جل کر نہیں رہ سکتے۔ اس دو قومی نظریے کی بنیاد پر محمد علی جناح نے تحریک پاکستان کا آغاز کیا آپ نے تحریک پاکستان کے لیے دن رات ایک کر دیے۔

محمد علی جناح ایک با اصول بے باک اور مخلص سیاستدان تھے۔ آپ نے کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا یہی وجہ تھی کہ دوست دشمن بھی مخالفت کے باوجود آپ کی بات ماننے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ محمد علی جناح نے اپنی و لولہ انگیز قیادت کی بدولت بکھری ہوئی مسلمان قوم کو اسلام کے جھنڈے تلے لا کھڑا کیا۔

ہندوستان میں اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے انگریزوں نے فرقہ بندی، نسل پرستی اور قوم پرستی کے ذریعے عوام کو مختلف گروہوں میں بانٹ رکھا تھا۔ محمد علی جناح نے مسلمانوں کو ایک کلمہ لا الہ الا اللہ پر اکٹھا کیا اور انہیں ایک اسلامی ریاست کے مطالبے اور آزادی کی جدوجہد پر اس طرح آمادہ کیا کہ وہ فرقہ بندی کو چھوڑ کر ایک مسلمان قوم بن کر کھڑے ہو گئے اور باہمی اختلافات بھلا کر تحریک پاکستان کے لیے تن من دھن کی بازی لگانے پر تیار ہو گئے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ لاکھوں انسانوں کی قربانی رنگ لائی اور دنیا کے نقشے پر پاکستان کے نام سے ایک اسلامی ریاست وجود میں آگئی ۔

قیام پاکستان کے بعد بھی محمد علی جناح نے اپنی جدوجہد ترک نہیں کی ان کا مقصد اس نوزائیدہ مملکت کو ناقابل تسخیر بنانا تھا، اپنی قوم کی تربیت کرنی تھی، تاکہ وہ دنیا میں نمایاں مقام حاصل کر سکیں ۔

انہوں نے اپنی فرمودات کے ذریعے قوم میں وہ روح پیدا کی کہ وہ تعمیر وطن کے جذبے سے سرشار ہو گئے انہوں نے ایک سوئی ہوئی قوم کو بیدار کیا اور انہیں بتایا کہ یہ ملک قائم رہنے کے لیے بنا ہے اس یقین کے ساتھ اس کی تعمیر و ترقی کے لیے مسلسل کام کریں ہر قسم کے تعصب اور فرقہ پرستی سے بالاتر ہو کر وطن کی تعمیر کریں اور دشمن کے خلاف متحد رہیں۔

پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے محمد علی جناح نے دن رات کام کیا انہوں نے نوجوانوں کو تعمیری سوچ دے کر ان کی صلاحیتوں کو صحیح رخ میں استعمال کیا ۔

وہ پاکستان کو ایک ایسی تجربہ گاہ قرار دیتے تھے جہاں مسلمان اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہو سکیں۔ انہوں نے اپنی زندگی پاکستان کے استحکام کے لیے وقف کر دی قوم کو تنظیم، اتحاد، ایمان جیسے سنہری اصول دے کر مسلسل اور بے غرض جدوجہد کی راہ دکھائی۔ اس طرح صحیح معنوں میں وہ قائدا اعظم کے لقب کے حقدار ٹھہرے۔

قائد اعظم کی شخصیت آج کل کی سیاست دانوں کے لیے مشعل راہ ہے ہمیں آج ایسے ہی رہنما کی ضرورت ہے جو اپنی بے لوث قیادت کے ذریعےتعصب، فرقہ پرستی اور نفرت کی سیاست کو چھوڑ کر، ذاتی اختلافات، ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر پاکستان کے عوام کو اسلام کے جھنڈے تلے اکٹھا کرے اور ملک سے جہالت بدامنی اور بدعنوانی کا خاتمہ کر کے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکے۔