السلام علیکم آنٹی کیسی ہیں آپ؟ مارتھا جوش سے ہاتھ ہلاتی ہوئی فریحہ کے گلے لگ گئی ۔
فریحہ نے جواباً اسے وعلیکم کہا اور دعا دی ” اللہ سبحان تعالی تم سے راضی ہوں ہدایت عطا فرمائیں دونوں جہانوں کی فلاح عطا فرمائیں آمین “
فریحہ کی دعائیں سن کر مارتھا خوشی سے گویا ہوئی’ اوہ آنٹی آپ نے تو میرا دن بنا دیا لو یو آنٹی ، آپ سے دعائیں ملتی ہیں تو لگتا ہے جیسے ممی دعا دے رہی ہوں ۔ فریحہ نے مسکراتے ہوئے محبت سے کہا مائیں تو اپنی اولادوں کے لئے دعا کو ہی سب سے قیمتی تحفہ سمجھتی ہیں بیٹی ۔ اچھا بتاو یہ امایہ کہاں ہے ابھی تک کلاس سے باہر نہیں نکلی ؟ ہی ہی ہی ہی ہی آنٹی آپ جانتی ہیں نا اپنی بیٹی کو مارتھا نے ہنستے ہوئے مزید کہا ‘ جب تک پیپر کا وقت ختم نہ ہوجائے وہ اسے ری چیک کر کر کے خود کو تھکاتی رہے گی ۔ مارتھا کی بات سن کر فریحہ بھی مسکرا دیں اور بولیں، ہاں یہ اس کی بچپن سے عادت ہے کبھی اپنے پیپرز سے مطمئن نہیں ہوتی ۔
ابھی بات یہاں تک ہی پہنچی تھی کہ امایہ دور سے آتی نظر آئی.
اماں کو اپنی بہترین دوست کے ساتھ گپ شپ کرتے دیکھ مسکرا دی ، وہ جانتی تھی کہ مارتھا اس کی اماں سے بہت محبت کرتی ہے اور بہت عزت بھی کرتی ہے ‘ وجہ تھی امایہ کی والدہ کا مارتھا کے ساتھ انتہائی مشفقانہ اور مخلصانہ رویہ ۔
وہ مارتھا کے کہے بغیر اس کے لئے امتحانات میں کامیابی کی دعا کرتیں ‘ اسے پڑھائی میں مدد دیتیں امایہ کو مارتھا کے ساتھ بہت اچھا ‘ عزت کا سلوک کرنے کا کہتیں نہ مارتھا کو اپنے گھر آنے سے روکتیں بلکہ امایہ کو مارتھا کے گھر خود ملوانے لے کر جاتیں ۔ ان سب باتوں کی وجہ سے مارتھا اور اس کے والدین فریحہ سے بہت عزت سے ملتے ۔
فریحہ کا سلوک مارتھا سے بالکل امایہ کی طرح کا ہوتا زمانے کی اونچ نیچ ‘ حالات کی خرابی سے ہر دم خبردار کرتی رہتیں ‘اکیلے باہر گھومنے، جسم کو شو آف کرتا لباس پہننے سے منع کرتیں اور وہ بھی ایسے دلائل کے ساتھ کہ مارتھا من و عن ان کی بات پر عمل پیرا ہوتی ۔ لیکن اتنی محبت ‘ عقیدت کے باوجود ایک بات جو مارتھا کو بہت کھٹکتی تھی وہ اس نے اپنی ممی سے بھی شیئر نہ کی تھی ۔ اور وہ یہ تھی کہ فریحہ کبھی بھی عیدین کی دعوت میں مارتھا کو شریک نہ کرتیں کبھی امایہ کو کرسمس ‘ ایسٹر یا گڈ فرائڈے میں نہ آنے دیا نہ مبارکباد دینے دی بلکہ اگر مارتھا عیدین کی مبارکباد دیتی تو آنٹی اور امایہ مسکرا کر رہ جاتیں شکریہ تک نہ بولتیں جو کہ مارتھا کے لئے حیرت کا باعث تھا ہی ساتھ ہی تکلیف دہ بھی ہوتا ۔
اب پھر کرسمس قریب تھا اور مارتھا نے سوچ رکھا تھا کہ کالج کے اس آخری سال کو یادگار بنانے کے لئے وہ لازمی امایہ کو اپنے گھر کرسمس پارٹی میں بلائے گی نہ جانے پھر زندگی کس دوست کو کہاں لے جائے، بس اسی سوچ نے اسے مضبوط کیا آنٹی فریحہ سے ضد کرنے کے لئے،
اگلے دن ششماہی کا آخری پیپر تھا فریحہ ڈرائیو کر کے امایہ کو کالج سے پک کرنے پہنچیں ‘ حسب معمول امایہ ابھی تک پیپر کو چاٹنے میں مصروف تھی جبکہ مارتھا اور ماروی باتوں میں مصروف تھیں اتنے میں ماروی کی گاڑی آ گئی اور وہ فریحہ سے سلام دعا کرتی جلدی سے باہر نکل گئی ‘ مارتھا آگے بڑھی اور فریحہ کو السلام علیکم کہہ کر اس کے گلے گئی ‘ فریحہ نے وعلیکم کہہ کر اسے گرمجوشی سے دبایا ۔ مارتھا اس کے گلے لگے لگے ہی بولی ” آنٹی ایک بات کہوں میری خوشی کے لئے مانیں گی ؟
فریحہ نے اسے الگ کرتے ہوئے تجسس سے دیکھا اور کہا ‘ اگر ماننے والی بات ہوئی تو ضرور مانوں گی ‘
آنٹی بہت معمولی سی بات ہے اس بار کرسمس پارٹی میں آپ اور امایہ ہمارے گھر ضرور آئیں پلیز آنٹی انکار نہ کیجئے گا پلیز، مارتھا جیسے گڑگڑائی ۔
فریحہ کے چہرے کا رنگ ایک دم تبدیل ہوا وہ بالکل چپ چاپ مارتھا کو دیکھتی رہیں ۔ مارتھا کو لگا جیسے وہ اسے تھپڑ جڑنے والی ہیں ‘ لیکن ایک دم فریحہ نے ایک لمبی ٹھنڈی سانس لی جیسے خود کو کمپوز کیا اور مارتھا سے کہا ” مارتھا بیٹی یہ معمولی بات نہیں ہمارے ہونے کی بنیاد یہ ہی بات ہے ” میں آپ سے یہ بات یوں اس طرح نہیں کہنا چاہتی تھی لیکن آج آپ کی ضد نے مجھے بے بس کر دیا یہ سب کہنے کے لئے کہ بیٹی آپ لوگ کرسمس مناتے ہو کہ نعوذباللہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ تعالی کے بیٹے بن کر اس دن پیدا ہوئے جبکہ بیٹا ہمارا تو ایمان ہے کہ ” اللہ احد ہے اس کا کوئی شریک نہیں نہ اس کا کوئی بیٹا ہے نہ وہ کسی کا باپ ہے ” اور بیٹا ایسی کسی بھی تقریب میں جہاں کسی کو اللہ کے ساتھ شریک کیا جائے ایک مسلمان کے لئے جانا حرام ہے اس کی مبارکباد دینا حرام ہے بیٹا یہ ایمان کو کھو دینے والی بات ہے اسلام سے خارج ہوجانے والی بات ہے تو آپ سمجھ لیں کہ ہم لوگ کیسے اس تقریب میں شامل ہو سکتے ہیں ‘ میں اور امایہ اسی لئے آپ سے کبھی عیدین کی مبارکباد وصول نہیں کرتے آپ کو اسلامی تہواروں کی تقریب میں دعوت نہیں دیتے کہ پھر آپ ہم سے توقع رکھو گی کہ ہم بھی آپکو آپ کے تہواروں کی مبارکباد دیں آپ کے ساتھ اس میں شریک ہوں اور جب ہم صرف آپ سے دوستی نبھانے کے لئے ایسا کریں گے تو بیٹا ہم اپنے اللہ کو ناراض کریں گے اللہ نہ کرے شرک جیسا ناقابل معافی گناہ کریں گے اور اگر شامل نہ ہوں گے تو آپ دین اسلام پر باتیں بنائیں گی کہ مجھے تو عید پر بلا لیا لیکن میرے گھر آتے انہیں اسلام یاد آ گیا ۔ اس لئے بیٹا ایسی دعوت کبھی ہمیں نہ دینا میری طرف سے معذرت ہے، ہاں اگر میرا اللہ آپ کو سعادت عطا فرمائے دین اسلام میں شامل ہونے کی تو الگ بات ہے پھر ہم یر قدم آپ کے ساتھ ہوں گے ان شاء اللہ ۔
آنٹی، مارتھا بھرائی ہوئی آواز میں بولی ، میں سمجھتی تھی کہ آپ مجھ سے اتنی محبت کرتی ہیں میری مدد کرتی ہیں پڑھائی میں ‘ میری دونوں جہانوں میں کامیابی کی دعا کرتیں ہیں تو آپ یقینا مذہب کو درمیان سے نکال کر ایسا کرتیں ہیں لیکن آپ تو ۔ ۔ ۔ ۔ رک جاو بیٹا یہیں رک جاو فریحہ ایک دم مارتھا کو ٹوکتے ہوئے بولیں ، تب تک امایہ بھی ان کے پاس آ چکی تھی ۔
میں تم سے واقعی محبت کرتی ہوں تم مجھے امایہ کی طرح عزیز ہو لیکن اس کی وجہ بھی میرا دین اسلام ہی ہے میرے اللہ سبحان تعالی کے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے کہ وہ غیر مسلموں سے بھی ویسی ہی شفقت سے پیش آتے جیسے مسلم سے ‘ ہمیشہ سب کی آخرت کی فکر میں رہتے اپنے حسن سلوک سے انہوں نے نا صرف عرب بلکہ غیر عرب کے بھی بت پرستوں ‘ کفار اور مشرکین کو مشرف باالسلام کیا کبھی کسی سے ذاتی دشمنی نہ رکھتے جو اللہ کے دین کا دشمن ہوتا دین اسلام اور اس کے پیروکاروں سے کھلی عداوت رکھتا صرف اس سے جنگ کرتے وہ بھی اللہ کے حکم سے ‘ ورنہ کوئی اسلام قبول کرنا نہ چاہتا تو زبردستی نہ کرتے نہ برا سلوک کرتے ‘ یہودی اور مسلم کا ایک معاملہ سامنے آیا تو یہودی کو حق پر دیکھ کر اسی کے حق میں فیصلہ کیا کیونکہ ان کی دوستی دشمنی سب اللہ کے لئے تھی اپنی ذات کے لئے نہیں، تو بیٹا میں کوشش کرتی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر کے اللہ کو راضی کرنے کی ‘ اور بیٹی یہ تمام انسان جو کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں یہ سب میرے اللہ کی سب سے پسندیدہ تخلیق ہیں اس لئے ایک مسلمان پر فرض ہے کہ وہ ہر انسان کی تکریم کرے اس کے حقوق کو تسلیم کرے اس لئے میں تم سے محبت کرتی ہوں تمہاری آخرت کی فکر کرتی ہوں کہ روز قیامت تم اللہ تعالی کے سامنے ایک مومنہ کی حیثیت سے حاضر ہو اس لئے تمہیں دعا دیتی ہوں تمہیں اچھائی برائی کا فرق سمجھاتی ہوں ‘ مارتھا بیٹی مجھے نہیں معلوم کہ میں اچھی مسلم ہوں یا نہیں، یہ اللہ جانتا ہے لیکن بیٹی ہمارے درمیان سے کبھی دین اسلام کہیں گیا ہی نہیں تھا ہمیشہ سے تھا ہمیشہ رہے گا فریحہ بہت نرمی سے مارتھا کا گال تھپتھپاتی گاڑی کی طرف چل دیں امایہ نے بھی ان کی تقلید کی ۔ مارتھا کے اندر جیسے کوئی طوفان اٹھ رہا تھا وہ سوچ رہی تھی کہ یہ کیسا دین ہے جو غیر مذہب والی سے بھی اپنی بیٹی جیسا سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اس کی آخرت کی فکر کرنے کا کہتا ہے جبکہ ہمارے یہاں تو مسیحی کے علاوہ ہر ایک کو اپنا دشمن کہا جاتا ہے ذاتی مفاد کو ہر چیز سے اوپر رکھنے کا سکھایا جاتا ہے ۔ مارتھا کا وجود وہیں تھا لیکن دل و دماغ سب امایہ کی طرح فریحہ کی تقلید پر اکسا رہا تھا یقینا کبھی وہ پہلا قدم اٹھا ہی لے گی یہ اس کا دل کہہ رہا تھا اور دل کی گواہی جھوٹی نہیں ہوتی ۔