عروج آفریں ایک روشن ستارہ
وہ رہبر ہمارا ، وہ قائد ہمارا
وہ مرد سیاست بلند اس کی ہمت
سراپا دیانت ، مجسم عزیمت
جناح جیسی شخصیت بنی نوع انسان کی آزادی کے گلے کا ہار ہے، جس کی یاد ہمیشہ تازہ رہے گی”۔ یہ خراج عقیدت ہے انگریزی کی بلند پایہ شاعرہ اور کانگریس کی رہنما بلبل ہند مسز سروجنی نائیڈو کا، اور واقعی قائداعظم اس سے بھی بلند تر خراج عقیدت کے مستحق ہیں۔
یہ قائداعظم کی شبانہ روز محنت اور کرشماتی شخصیت کا نتیجہ تھا کہ جب سے انہوں نے مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی، تھوڑے ہی عرصے میں مسلمانوں کی اہمیت کا یہ عالم ہوگیا کی برطانوی وزیراعظم بھی ان کے جذبات کا احترام کرتا اور کانگریس کی قیادت بھی ان کی بات سننے پر مجبور ہوگئی۔ محمد علی جناح کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ مستقبل مزاج اور عزم محکم کے مالک تھے۔ بہت غوروفکر کے بعد ایک راستہ متعین کرتے، پھر اس پر کوہ گراں کی طرح اٹل رہتے۔ بڑی سے بڑی مشکل یا مصلحت ان کے پائے استقامت میں لرزہ پیدا نہ کرسکتی۔ ان کی سیاسی زندگی کا روشن ترین پہلو یہ ہے کہ وہ نظم و ضبط کے معاملے میں کسی نرمی کے قائل نہ تھے۔ اس سلسلہ میں وہ کسی بڑی سے بڑی شخصیت اور مصلحت کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ انہوں نے ہر کسی پر واضح کردیا کہ مسلم لیگ میں شامل رہنے کے لئے اصول و ضوابط کی پابندی ضروری ہے۔
قانون کی پابندی کا یہ عالم تھا کہ آپ ایک دن گورنر جنرل ہاؤس سے کار میں سیر کے لئے کہیں جا رہے تھے۔ قائد کے اے ڈی سی کیپٹن گل حسن ساتھ تھے۔ اتفاق سے ریلوے پھاٹک بند تھا۔ ADC نے پھاٹک والے سے کہا کہ اگر گاڑی آنے میں دیر ہے تو پھاٹک کھول دے کیونکہ کار میں قائداعظم بیٹھے ہیں۔ اس نے پھاٹک کھول دیا۔ گل حسن نے واپس آکر ڈرائیور کو کار چلانے کا اشارہ کیا، لیکن ڈرائیور نے کہا کہ صاحب نے گاڑی چلانے سے منع کیا ہے۔ قائد نے گل حسن سے پھاٹک بند کروا دینے کے لئے کہا۔ چوکیدار نے کہا کہ ابھی گاڑی دور ہے، آپ گزر جائیں۔ قائد نے ڈانٹ کر کہا کہ خیریت اسی میں ہے کہ پھاٹک بند کردے اور گل حسن سے کہا کہ اگر میں اپنے ہی جاری کردہ احکام پر خود عمل نہیں کرتا تو دوسروں سے کیا توقع رکھوں گا۔ آج کے کاروں کے قافلے میں سفر کرنے والے حکومتی افسران شاید قائداعظم کے اس طرز عمل کو سمجھنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے۔
قائداعظم ملک کی دولت کو قوم کی امانت سمجھتے تھے۔ ایک بار گورنر جنرل ہاؤس میں ان کے سیکرٹری نے ان سے کہا کہ جناب آپ کے اس طرح بتیاں بجھانے سے ہمیں شرمندگی ہوتی ہے، ویسے بھی چند بتیوں سے کیا فرق پڑتا ہے؟ قائداعظم نے فرمایا “بات فرق کی نہیں، اصول کی ہے، روپیہ ضائع کرنا گناہ ہے اور اگر وہ قوم کا سرمایہ ہو تو اور بھی بڑا گناہ ہے”۔
قائداعظم جھوٹے اور مصنوعی طریقوں سے ملنے والی شہرت کو سخت ناپسند فرماتے تھے۔ ایک بار ان کے سیکرٹری نے روزنامہ “احسان” لاہور میں شائع ہونے والے ایک مضمون کی طرف ان کی توجہ مبذول کروائی، جس میں قائد پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ لوگوں کو ملنا جلنا پسند نہیں کرتے اور اپنے گھر پر کسی کو مدعو نہیں کرتے۔ قائد نے یہ سن کر کہا “میں لوگوں کے شکم کے راستے مقبولیت حاصل نہیں کرنا چاہتا۔ میری خواہش ہے کہ لوگ میرے کردار کو دیکھیں، سیاسی دعوتیں ایک قسم کی رشوت ہے۔ یہ طریقہ میرے مزاج کے خلاف ہے”۔
کیا آج کا پاکستان وہی ہے جس کے حصول کی جدوجہد قائداعظم نے کی۔ وہ کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ 24 اپریل 1943ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے دہلی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے حصول پاکستان کے مقاصد کو واضح کیا، “میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو خبردار کرتا ہوں، جو عوام کے حقوق کو روندنے والے ایسے نظام کی پیداوار ہیں، جو ظالم اور سنگ دل ہے اور جس نے انھیں اتنا خودغرض بنا دیا ہے کہ وہ کوئی معقول بات سننے کو تیار نہیں۔ عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا ان کے خون میں سرایت کر گیا ہے۔ اسلام کی تعلیمات کو انہوں نے بھلا دیا ہے۔ اپنی حرص اور لالچ کے سامنے انہوں نے دوسروں کے مفاد کو نظرانداز کردیا ہے۔ میں نے دیہات میں گھوم پھر کر دیکھا ہے جہاں لاکھوں انسانوں کو ایک وقت کی روٹی میسر نہیں۔ کیا اسی کا نام تہذیب ہے؟ کیا ان کے نزدیک پاکستان بنانے کا مقصد یہی ہے؟ اگر ایسا ہے تو مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہئے”۔
قائداعظم محمد علی جناح کا شمار ان مخلص لیڈروں میں ہوتا ہے جنہوں نے تاریخ بنائی۔ دور جدید میں شاید ہی کوئی لیڈر ایسا ہو، جس نے قوم کو صرف دیا ہو اور بدلے میں اس نے نہ اپنے لئے اور نہ اپنے خاندان کے لئے کچھ مانگا ہو۔ امریکی مؤرخ اسٹینلے والبرٹ ہمارے قائد کے حضور خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے، “بہت کم افراد تاریخ کا رخ موڑ سکتے ہیں، ان سے بھی کم لوگوں کو دنیا کے نقشے بدلنا نصیب ہوا، اور پھر ایسے لوگ تو شاید انگلیوں پر گنے جا سکیں، جنھیں ایک قومی ریاست کی تشکیل کا شرف حاصل ہو۔ محمد علی جناح نے یہ تینوں معرکے اکیلے سرانجام دئیے”۔
قائداعظم کا یہ اسوہ پاکستانی حکمرانوں کے لئے مشعل راہ ہے بشرطیکہ وہ اس مشعل کو رہبری کے لئے پسند کریں۔
جو آزاد اب یہ مکان و مکیں ہیں
اسی کی قیادت کے نقش و نگیں ہیں
ہمیں کیوں نہ ہو اس کا کردار پیارا
وہ رہبر ہمارا ، وہ قائد ہمارا