سال نو! تجدید عہد

ہم نے رواں سال میں کیا کھویا؟ کیا پایا؟ اپنے اندر کیا تبدیلیاں کی؟ کیا نئی اصلاحات کیں؟ جب ہم خود ہی نہیں بدلیں گے، تو حالات، وقت، سال ہمیں کیا بدلیں گے؟حالات بدلنے کا رونا ہمیشہ وہی لوگ روتے ہیں، جو خود کچھ نہیں کرنا چاہتے۔

بحیثیت قوم اور امت ہم عمل سے بے بہرا ہیں۔ ہم مہدیِ وقت اور مسیح ابن مریم ہی کے منتظر ہیں۔ ہم خود اپنے مسیحا کیوں نہیں ہیں؟ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ وہ آئیں گے مگر جب تک وہ آئیں گے تو کیا تب تک مسلمان اُمت پستی کا شکار رہے گی۔ تھے تو وہ آبا تمہارے ہی! مگر تم کیا ہو؟ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِ فرداں ہوں۔جب ہم خود ہی اپنی طاقت و صلاحیتوں کو نہیں جانیں گے تو کوئی انگلی پکڑ کر چلانے والا نہیں آئے گا۔

آئیے اس آنے والے ”شمسی سال“ میں سب مل کر عہد کریں کہ ہم خود کو بحیثیت اُمت اور ایک ملت منوائیں گے اُمت وسطیٰ ہونے کا حق ادا کریں گے۔ انفرادی سطح پر چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں کا آغاز کریں اور یہ تبدیلی خود اپنے آپ سے کریں۔ انقلاب لازمی نہیں کسی بڑی تبدیلی سے آئے چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں مل کر بڑے بڑے معجزے رونما کرتی ہیں۔ اگر زندگی میں آج اُحد کا سا معاملہ ہے تو کوئی بات نہیں یہ اُتار چڑھاؤ تو ایمان کے زندہ ہونے کی دلیل ہیں۔ کل بدر کے سے حالات بھی آئیں گے۔ اللّہ کی کتاب اور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت پر عمل کر کے ہم یہ دنیا کیا اگلی دنیا بھی فتح کر سکتے ہیں۔

بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری ہدایت کا سر چشمہ جو کتاب بھیجی گئی اور سرورِ کائنات جیسی ہستی جس نے ہمیں وہ کتاب سکھلائی ان سے وفا کر لیں، تو ہم پھر سے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتے ہیں۔

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں